گری ہوئی چیز کا مالک کون؟ میاں شاہد شفیق

*گری ہوئی چیز کا مالک کون؟*

ہمارے ہاں پنجابی میں ایک محاورہ بولا جاتا ہے

'' *لبی چیز خدا دے نہ تیلی* (مخصوص وزن) *دی نہ پاء* (مخصوص وزن اردو میں پاؤ کہتے ہیں) *دی*''

جیسے ہی کسی انسان کو کوئی گری ہوئی چیز ملتی ہے فورا یہ محاورہ بولا جاتا ہے اور یہ فلسفہ بنایا جاتا ہے یہ تو خدا کی طرف سے ہمارے لئے تحفہ آیا ہے اس کا مالک (انسان) کوئی بھی نہیں۔
شریعت کی روشنی میں دیکھیں تو یہ سوچ اور نظریہ بالکل باطل ہے۔
شریعت کی رو سے گری ہوئی چیز کو *''لقطہ''* کہتے ہیں۔
اس کا حکم یہ ہے کہ جس شخص کو یہ چیز ملے وہ اس کی خوب تشہیر کر کے اس کے مالک تک پہنچا دے۔اگر بہت تگ و دو کے بعد بھی مالک نہیں ملتا تو اس وقت تک اس لقطہ کو سنبھال کر رکھے جب تک یہ غالب گمان نہیں ہوجاتا کہ اب اس کا مالک اس کو تلاش نہیں کر رہا ہو گا یعنی ناامید ہو کر اس کی تلاش چھوڑ چکا ہوگا۔
اب اس کے بعد بھی وہ چیز اسے ذاتی تصرف میں لانے کی اجازت نہیں بلکہ اس مالک کی طرف سے صدقہ کردے
چاہے فقیر کو دے چاہے مسجد وغیرہ مگر خود استعمال نہ کرے۔

✍🏻میاں شاہد شفیق
07_09_2019

Comments

Popular posts from this blog

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

گستاخ رسول کو کتے نے برداشت نہ کیا