Posts

Showing posts from November, 2017

لیلۃ القدر اورشب میلاد النبی

#لیلةالقدر اور #شب_میلاد_مصطفٰی ( 12 ربیع الاول کی رات) #سوال کیا لیلةالقدر افضل ہے یا جس رات نبی اکرم صلی الله علیہ و سلم کی #ولادت ہوئی وہ رات افضل ہے؟ #جواب #امام_قسطلانی علیہ الرحمہ اس سوال کا جواب دیتے ہوئےفرماتے ہیں. آپ صلی الله علیہ و سلم کی #ولادت کی رات افضل ہے اور اِس کی تین وجوہ ہیں. 1: میلاد شریف کی رات نبی اکرم صلی الله علیہ و سلم کے #ظھور کی رات ہے اور لیلةالقدر آپ صلی الله علیہ و سلم کو #عطا کی گئی اور جس چیز کو ذات (نبی اکرم)  کی وجہ شرف حاصل ہوا وہ اُس ذات (نبی اکرم)  سے زیادہ شرف والی نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ اُس ذات (نبی اکرم) کو عطا کی گئی اس اعتبار سے #میلاد کی رات #افضل ہے. 2: لیلةالقدر کو #شرف اس لئے حاصل ہے کہ اس میں #فرشتے اترتے ہیں اور #میلاد_شریف کی رات اس لئے افضل ہے کہ اس میں نبی اکرم صلی الله علیہ و سلم #جلوہ_گر ہوئے اور جس ذات (نبی اکرم) کی وجہ سے میلاد شریف کی رات مشرف ہوئی وہ ذات (نبی اکرم)  اُن (فرشتوں)  سے افضل ہے جن کے ذریعے لیلةالقدر کو شرف حاصل ہوا. یہی زیادہ صحیح پسندیدہ قول ہے. 3: شب قدر میں صرف #امتِ_محمدیہ پر فضل خداوندی ہوتا ہے جب کہ میلا

طلاق یافتہ بیٹی

طلاق یافتہ بیٹی: بیٹی شادی کے بعد اپنے گھر والی سمجھی جاتی ہے ،اگر اللہ نہ کرے اسے طلاق ہو جائے ،تو کوئی اس کا خرچ اٹھانے کو تیار نہیں ہوتا،بھائیوں کی بیویاں انھیں ایسا کرنے سے روک دیتی ہیں،باپ بے چارہ خرچ تو کرتا ہے ،لیکن بے دلی سے ،نبی کریم علیہ السلام نے ان دکھی خواتین کیلئے ،ایسی بہترین بات ارشاد فرمائی،جس سے ہر باپ ان پر خوش دلی سے خرچ کرے گا. آپ علیہ السلام نے فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے صدقے کے بارے میں نہ بتاؤں... ؟؟ عرض کی ،یارسول اللہ!  ضرور بتائیں آپ نے فرمایا: "ابْنَتُكَ مَرْدُودَةٌ إِلَيْكَ، لَيْسَ لَهَا كَاسِبٌ غَيْرَكَ" تمہاری وہ بیٹی جو شادی کے بعد تمہاری طرف لوٹ آئے،اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا نہ ہو. (کتاب البر والصلۃ ،علامہ ابن الجوزی) از #احسان_اللہ کیانی 25-نومبر-2017

تقدیر کے آگے کوئی تدبیر کار آمد نہیں

تقدیر  کے  آگے   کوئی تدبیر کار آمد نہیں   جیسےپانی پہ کھینچی لکیر کار آمد نہیں   جو حاکمِ وقت کےدربار پہ لگاتےہوں چکر ایسے گدی نشیں, ایسے  پیر کار آمد نہیں  جس کی ساری محنت ہی اپنےانداز پہ ہو ایسے لا عِلم مقرّر کی تقریر کار آمد نہیں امام زین العابدین کےنام پرقیدی بننے والے تیری  بیڑی  کی کوئی زنجیر کار آمد نہیں  جو بھائی اپنے ہی بھائی کےگلے پہ چلائے ایسا بھائی اور ایسی  شمشیر کارآمد نہیں از کلام غلام فرید عطاری

بابائے انقلاب

امیر المجاھدین علامہ خادم حسین رضوی صاحب کی بارگاہ ناز میں گلہائے عقیدت کی چند پتیاں #بابائے #انقلاب  حرارتِ دلِ عاشقاں  بابائے انقلاب ہےسالارِ مجاھداں   بابائے انقلاب عالم و حافظِ قراں  بابائے انقلاب اہلِ سنن کی شاں   بابائے انقلاب امتِ نبوی کا سَر، اونچا دیاہے کر بانئ لشکر و کارواں بابائے انقلاب تیری مدد سے، چمکے اور دمکے ہیں قلوب و اذھاں  بابائے انقلاب  تیرے کردار  سے،گرمئ گفتار سے حکمران ہیں لرزاں بابائے انقلاب بیباکی کا جواب، نہیں ہے جناب ہیں فخرِ دلیراں  بابائے انقلاب کاش چھاجائیں،فرؔید اب لے آئیں  نظامِ مصطفی یہاں بابائے انقلاب 📝از کلام غلام فرؔید عطاری

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں مسلم امت اپنے مسائل پر کبھی قابو نہیں پاسکتی جب تک کہ وہ تقسیم رہیگی، یاد رکھیں ہمارے دشمن کی نظر میں ہم صرف مسلمان ہیں، انکو اس سے کوئی پرواہ نہیں کہ ہم پاکستانی ہیں یا اماراتی، بنگلہ دیشی ہیں یا افغانی، انکو مسئلہ صرف ہماری مسلم پہچان سے ہے، اسی لئے کبھی اسرائیل کی شکل میں وہ غزہ میں ہمکو مارتا ہے تو کبھی ہندوستان کی شکل میں پاکستان و کشمیر میں، روس کی شکل میں چیچنیا میں ہمارا خون بہایا جاتا ہے تو کبھی عراق کی شکل میں امریکہ ہمکو قتل کرنے آتا ہے۔ اس ساری انارکی اور خون خرابے میں مشترک صرف ایک چیز ہے اور وہ مسلم کا خون۔ غیر ہمیں کیوں مار رہے ہیں یہ شکوہ کرنا ہی بے جا ہے، کمزور ہم خود ہیں۔ گھر کا سربراہ نالائق ہوگا تو اسکے گھر کو لوگ عام راستہ بنانے سے گریز نہیں کرتے۔ مسلم حکمرانوں کو بالخصوص اور مسلم عوام کو بالعموم اب عقل آجانی چاہیئے ورنہ  مذہب کا استعمال کر کے ہمارے اندر کے آستین کے سانپوں کے ذریعے  ہمارا خون یونہی بہایا جاتا رہیگا۔ تحریر: محمد فھد حارث

دور اندیشی

#دور #اندیشی علامہ نثار احمد اجؔاگر صاحب نے غازی ملک ممتاز حسین قادری شھید علیہ الرحمہ کی شھادت کے چند دنوں بعد ہی ایک کلام لکھا تھا جس کا مطلع یہ ہے کہ رائیگاں نہ جائے گا خون  میرےغازی کا انقلاب..... لائے گا خون  میرے  غازی کا سوز و گداز اور اخلاص میں ڈوبے ہوئے الفاظ کی تاثیر کا اندازہ دھرنے کی حمائت میں علما و مشائخ و شرکاء کی تعداد اور اپنے اپنے سینے میں دھڑکنے والے دل سے لگایا جا سکتا ہے؛ 📝از تحریر: غلام فرید عطاری

اخلاص از شہریار

اخلا ص:- کسی بھی نیک عمل میں محض رضائے الہی حاصل کرنے کا ارادہ اخلاص کہلاتا ہے۔ آپ(علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا: اخلاص کے ساتھ عمل کرو کہ اخلاص کے ساتھ تھوڑا عمل بھی کافی ہے۔ کل بروزِ قیامت ایسے اعمال منہ پر مار دئیے جائیں گے جو اخلاص کے ساتھ نہ کیے گئے ہوں گے۔ حضرت عیسی(علیہ السلام) سے حواریوں نے عرض کی:اعمال میں خالص کون ہے؟ فرمایا:جو اللہ کے لیے عمل کرتا ہے اور پسند نہیں کرتا اس پر کوئی اس کی تعریف کرے۔ از شہریار

اخلاص از شہریار

اخلا ص:- کسی بھی نیک عمل میں محض رضائے الہی حاصل کرنے کا ارادہ اخلاص کہلاتا ہے۔ آپ(علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا: اخلاص کے ساتھ عمل کرو کہ اخلاص کے ساتھ تھوڑا عمل بھی کافی ہے۔ کل بروزِ قیامت ایسے اعمال منہ پر مار دئیے جائیں گے جو اخلاص کے ساتھ نہ کیے گئے ہوں گے۔ حضرت عیسی(علیہ السلام) سے حواریوں نے عرض کی:اعمال میں خالص کون ہے؟ فرمایا:جو اللہ کے لیے عمل کرتا ہے اور پسند نہیں کرتا اس پر کوئی اس کی تعریف کرے۔ از شہریار

حضرت سیدنا طاؤس بن کیسان یمانی: از شہر یار

حضرت سیدنا طاؤس بن کیسان یمانی: - آپ تابعین میں سے ہیں۔آپ بیدار مغز،فقیہ اور نیکوکاروعبادت گزار تھے۔آپکا تعلق یمن کے پہلےطبقے سے تھا جس کے بارے میں آپ(علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا تھا: ایمان تو یمن والوں کا ہے۔حضرت سیدنا ابن شوذب(رحمةالله تعالى عليہ) فرماتے ہیں:میں 105 ہجری مکہ مکرمہ میں آپ کے جنازے میں تشریف لے گیا تو لوگ فرما رہے تھے:اللہ ان پر رحم فرمائے : انھوں نے 40 حج کئے تھے۔حضرت سیدنا عبدالرزاق(رحمة الله عليہ)اپنے والد محترم سے روايت كرتےہيں:آپ(علیہ رحمة المنان) ايک بار ابرآلود ٹھنڈی صبح میں نماز پڑھ رہے تھے سجدے کی حالت میں تھے کہ حجاج بن یوسف کا بھائی محمد بن یوسف وہاں سے گزرا، اس نے عمدہ قسم کی ساگون لکڑی(کا عصا)اور سبز رنگ کی شال منگوائی آپ کی خدمت میں پیش کی جب آپ نے سلام پھیرا اور اس چیز کو دیکھا تو آپ کو کپکی طاری ہو گئ اور اسکی طرف توجہ کیے بغیر اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔ از شہریار

شانِ امیر المجاھدین علامہ خادم حسین رضوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ

شانِ امیر المجاھدین علامہ خادم حسین رضوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ   کشتئیِ امت کے  ناخُدا تیری کیا بات ہے ڈوبتی ناؤ، لی  ہے  بچا  تیری کیا بات ہے لرزاں ہیں تیری ذات سے سب فرماں رواء اے مالکِ رعب و دبدبہ  تیری کیا بات ہے محافظِ ناموسِ رسالت ہوتے ہیں شیر دِل خدا نے تجھ کو چن لیا تیری کیا بات ہے شانہ بشانہ ہیں ساتھ تیرےسب اہل سنن سنیوں  کو وہ جذبہ دیا تیری کیا بات ہے راہ میں تیری، معذوری بھی آڑے آنہ سکی اے! راہئیِ راہِ خدا  کیا  تیری  کیا  بات ہے آہ! فریؔد تُو کچھ بھی نہ کرسکا”بہرِ خادم“ کاش مقبول ہو یہ ”لکھنا“ تیری کیا بات ہے از کلام  غلام فرید عطاری

بے سروسامان ہیں دھرنے والے

بے سروسامان ہیں دھرنے والے سب مسلمان ہیں دھرنے والے یارب تیرے محبوب کی خاطر کچھ لہولہان ہیں دھرنے والے غیبی مدد کے دروازے کھول تیرے مہمان ہیں دھرنے والے لب پر تیرے محبوب کا نام یک  زبان ہیں دھرنے والے ہٹے نہیں، ہیں جب سے آئے مثلِ چٹان ہیں دھرنے والے نصر من اللہ و فتح قریب منتظرِ اعلان ہیں دھرنے والے فتح کا عَلم لہراتےہوئے پلٹیں ہماری شان  ہیں دھرنے والے از کلام غلام فرید عطاری

کیا آپ ایک اچھا قلم کار(لکھاری) بننا چاہتے ہیں (انتخاب:عمران شہزاد تارڑ )

کیا آپ ایک اچھا قلم کار(لکھاری) بننا چاہتے ہیں (انتخاب:عمران شہزاد تارڑ ) تحریر میں جملے کی اہمیت لکھنے کی ابتدا ایک جملے سے ہوتی ہے۔ اس لیے آج ہم اچھا جملہ لکھنے کے لیے چند بنیادی باتوں پر بات کیے لیتے ہیں۔ کسی بھی بات کو کہنے کے لیے آپ جن الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں، اور جو انداز اختیار کرتے ہیں وہ ایک جملے کی تشکیل کرتے ہیں۔ ایک اچھا جملہ وہ ہوتا ہے جس میں روانی، آسانی، اور اختصار ہو۔ ٹوٹے پھوٹے، طویل، اور مشکل الفاظ والے جملے تحریر کا تاثر خراب کر دیتے ہیں۔ اس لیے آپ سب سے پہلے اس بات کی کوشش کریں کے اپنے جملے ہمیشہ مختصر اور آسان رکھیں۔ بہت سے دوست سمجھتے ہیں کہ ادق اور مشکل الفاظ لکھنا ہی اصل ادیب کی نشانی ہوتی ہے۔ اور اس وجہ سے وہ شعوری طور پر کوشش کرتے ہیں کہ نئے نئے مشکل الفاظ ڈھونڈ ڈھانڈ کر اپنی تحریر میں شامل کریں۔ میرا انکو مشورہ ہوگا کہ جب تک کوئی مشکل لفظ خود سے انکی تحریر میں روانی میں نہ آجائے وہ اپنی اس کوشش کو چھوڑ دیں۔ اگر آپ کوشش کرنا ہی چاہتے ہیں تو جملے کو آسان بنانے کی کوشش کریں۔ یاد رکھیے، آسان مگر پر اثر لکھنا ایک مشکل کام ہے۔ مگر دنیا کے مقبول ترین تحریروں کو

تحریر...مفتی ابولبابہ شاہ منصور

تحریر...مفتی ابولبابہ شاہ منصور                   خالی جگہ بھریں دنیا میں بنو امیہ اور بنو عباس کی شاندار عرب تہذیبوں کے بعد اب تک تین تہذیبیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے اسلام کو قائم، نافذ اور غالب کیا- آج کل دنیا بھر میں بسنے والے مسلمان ان تینوں میں سے کسی ایک کے وارث ہیں- ان تینوں میں کچھ صفات تھیں جن کے باقی رکھنے پر اور پروان چڑھانے پر ان تہذیبوں کی باقیات کی بقا موقوف ہے- دنیا بھر کی کوشش ہے کہ نہ تو یہ اپنی اصل کی طرف لوٹ پائیں اور نہ ایک دوسرے سے تعاون کرسکیں- ان میں سے ایک تہذیب تو اپنے ورثے کی سرے سے حفاظت ہی نہ کرسکی، لہذا وہ مخالف آندھی کی نذر ہوگئی- بقیہ دو کی کشمکش تاحال جاری ہے اور ان کی فلاح ونجات اس پر موقوف ہے کہ اپنی اصل کی تلاش کے ساتھ ایک دوسرے سے تعاون اس انداز میں حاصل کریں کہ وہ تعاون علی البر والتقوی میں تبدیل ہو جائے- یہ تعارف اور تعاون انہیں تواصی بالحق بالصبر کے اس مبارک عمل میں جوڑ دے گا جس سے دل جڑتے ہیں، دلوں کے بیچ خالی جگہ بھرتی ہے اور مسلمانوں کے دل اور نمازیوں کی صفیں دو ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے بیچ خالی جگہ بھرنے پر اللہ رب العزت کی مدد ونصرت اترتی ہے

مولوی کی عملی زندگی پرایک نظر

مولوی کی عملی زندگی پرایک نظر ۔۔۔۔۔!!!!! آج کے زمانے میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ سستی ہے تو وہ ہے مولوی کی ذات اقدس ہے، عالم ہوں، حافظ بھی ہوں، اور قاری صاحب بھی ہوں، تھوڑی بہت انگریزی بھی جانتے ہوں مولوی اگر امام ہو تو اس کی ذات اور بھی سستی ۔۔۔۔۔ جو چاہے دوچار صلٰوۃ سنا دے، الیکشن میں کسی ایک گروپ کا ساتھ دے تو امام نے رشوت لی ہوگی، نہیں دے تو گھمنڈ آگیا ہے، ہمارے مخالف نے خرید لیا ہوگا، زنا کے خلاف جمعہ میں بول دیا تو نوجوان ناراض، رشوت خوری کے خلاف زبان کھولی تو سرکاری افسران چراغ پا، سود کی حرمت پر لب کشائی کی تو سرمایہ  دار نے آستینیں چڑھالی، فرض نماز کی اہمیت بتلائی تو آٹھویں دن( جمعہ )کے نمازی ناراض، شراب نوشی کو چھیڑا تو ساقیان میخانہ کی دھمکی ملی، نماز تھوڑی طویل ہوگئی تو امام صاحب سو جاتے ہیں ، جلدی پڑھی تو مولانا کو مسجد سے باہر نکلنا ہوگا تبھی ، سیاست میں حصہ نہیں لیا تو مولوی ناکارہ ہے، انہیں کچھ نہیں آتا ہے ۔۔ اگر حصہ لے لیا تو دیکھو بِک گیا ہوگا،  ، چندہ کرکے بچوں کو پڑھائے تو بھیک مانگتا ہے، اپنی تجارت کرے تو علم کو ضائع کردیا، سر