Posts

Showing posts from 2019

گری ہوئی چیز کا مالک کون؟ میاں شاہد شفیق

*گری ہوئی چیز کا مالک کون؟ * ہمارے ہاں پنجابی میں ایک محاورہ بولا جاتا ہے '' *لبی چیز خدا دے نہ تیلی* (مخصوص وزن) *دی نہ پاء* (مخصوص وزن اردو میں پاؤ کہتے ہیں) *دی*'' جیسے ہی کسی انسان کو کوئی گری ہوئی چیز ملتی ہے فورا یہ محاورہ بولا جاتا ہے اور یہ فلسفہ بنایا جاتا ہے یہ تو خدا کی طرف سے ہمارے لئے تحفہ آیا ہے اس کا مالک (انسان) کوئی بھی نہیں۔ شریعت کی روشنی میں دیکھیں تو یہ سوچ اور نظریہ بالکل باطل ہے۔ شریعت کی رو سے گری ہوئی چیز کو *''لقطہ''* کہتے ہیں۔ اس کا حکم یہ ہے کہ جس شخص کو یہ چیز ملے وہ اس کی خوب تشہیر کر کے اس کے مالک تک پہنچا دے۔اگر بہت تگ و دو کے بعد بھی مالک نہیں ملتا تو اس وقت تک اس لقطہ کو سنبھال کر رکھے جب تک یہ غالب گمان نہیں ہوجاتا کہ اب اس کا مالک اس کو تلاش نہیں کر رہا ہو گا یعنی ناامید ہو کر اس کی تلاش چھوڑ چکا ہوگا۔ اب اس کے بعد بھی وہ چیز اسے ذاتی تصرف میں لانے کی اجازت نہیں بلکہ اس مالک کی طرف سے صدقہ کردے چاہے فقیر کو دے چاہے مسجد وغیرہ مگر خود استعمال نہ کرے۔ ✍🏻میاں شاہد شفیق 07_09_2019

مرد بھی بانجھ ہوسکتا ہے :میاں شاہد شفیق

*مرد بھی بانجھ ہوسکتا ہے* ✍🏻میاں شاہد شفیق 27_8_19 ہمارے معاشرے کا ایک ناسور اور المیہ یہ ہے کہ بے اولادی کا ذمہ عورت کے سر ڈال کر اسے ملامت و طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔بلکہ اب تو اس بناء پر طلاق دینا ایک عام مسئلہ بن چکا ہے۔ جبکہ حقیقت کچھ اور ہے صاحب حاشیۃ الجمل نے سورۃ الشوری کی آیت نمبر 50 *و یجعل من یشاء عقیما* *وہ (اللہ)جسے چاہے بانجھ بناتا ہے* کے تحت *عقیم(بانجھ)* کی تعریف کی *العقیم الذی لایولد لہ ، یطلق علی الذکر و الانثی* ''اولاد پیدا نہ کرسکنے والے کو بانجھ کہتے ہیں چاہے وہ مرد ہو چاہے عورت'' جدید Medical research کے مطابق یہ بات مزید واضح ہوچکی کہ بے اولادی یا صرف بیٹیوں کی پیدائش میں عورت کا نقص یا قصور نہیں، مرد بھی اس کا قصور وار ہوتا ہے بلکہ زیادہ تر تو اس کا زیادہ قصور مرد کی جانب سے ہوتا ہے۔ خدارا معاشرے کے اس ناسور کو ختم کیجئے اس بناء پر عورتوں پہ ظلم بند کی کیجئے اور اردو کے ایک محاورہ *اپنے گریبان میں جھانکو* پہ عمل کیجئے۔