رستے زخم ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
رستے زخم ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
سعدیہ کہو تو تمہیں ڈراپ کر تے ہوئے آفس چلا جاؤں ۔
نہیں دانیال آپ کو دیر ہو جائے گی میں ابھی تیار بھی نہیں ہوئی اور دوسرا اسکول کا فنکشن بھی دیر سے ہی شروع ہو گا ۔
جیسے تمہاری مرضی اور دانیال ناشتہ کرکے آفس چلے گئے ۔
دانیال کے آفس جانے کے بعد میں نے تیار ہو نا شروع کیا اور دس بجے تک اسکول پہنچ گئی ۔
اوہو ۔۔ میں آپ کو بتانا ہی بھول گئی میرا ایک دینی ادارہ ہے جہاں میں اور میری ٹیم بچیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے مختلف پروگرامز کا انعقاد کرتی ہے پوش علاقے میں رہائش اور ادارہ ہونے کے سبب مختلف اسکول مجھے اکثر مہمان خصوصی کی حیثیت میں مدعو کرتے رہتے ہیں ۔
اسکول کی رونق کو تو آج چار چاند لگے ہوئے تھے ۔۔۔زرق برق لباس میں ملبوس بچیاں بہت ہی پیاری لگ رہی تھیں اسکول کا فنکشن شروع ہو ا بچیوں نے مختلف ٹیبلوز پیش کیے ۔۔۔۔کچھ پوئم ، گانے ،کچھ ڈرامے ہوئے اور ڈرامے کا اسکرپٹ بتا رہا تھا کسی لبرل بیمار ٹیچر نے لکھا ہے اتنی چھوٹی بچیوں کے لیے یہ اسکرپٹ جس میں طلاق تک کا سین موجود ہو اس کے رائیٹر کے نفسیاتی لبرل ہونے میں مجھے کم ازکم کوئی شک نہیں رہاتھا ۔۔۔۔
لیکن ایک الارم مسلسل میرے وجود میں بج رہا تھا یہ ہو کیا رہا ہے ؟ یہ چل کیا رہا ہے؟ یہ فنکشن اور پارٹی کے نام پر اسکولوں میں سکھایا کیا جا رہا ہے ؟میری چھٹی حس کسی خوفناک منظر کی جانب اشارہ کررہی تھی ۔
کچھ دیر کے لیےمجھے موقع ملا تو میں بچیوں میں گھل مل گئی میں نے ان بچیوں سے سوال کیا تم بڑے ہو کر کیا بنو گی ؟
ایک بچی نے کہا : مس! میں سنگر اور ڈانسر بنوں گی ۔
پھر ٹی وی والے مجھے لے جائیں گے پھر میں ٹی وی پر سونگ گایا کروں گی ۔
سوشیل میڈیا پر ایسی ہی ایک پوسٹ تھی جس کے جواب نے مجھے لرزا دیا تھا
جب ایک اور بچی سے یہ ہی سوال کیا اچھا بیٹا ! تم بڑے ہو کر کیا بنو گی ؟
اس بچی کا جواب سُن کر آپ کی بھی وہی کیفیت ہو گی جو میری ہوئی تھی ۔
’’اس بچی نے کہا : مس ! میں بڑے ہو کر قندیل بلوچ بنوں گی ۔
چند منٹ تو میں سکتے کی کیفیت سے باہرہی نہیں آسکی میں نے پوچھا بیٹا ! وہ کیوں ؟
بچی نے کہا : مس اس نے اپنے والدین کو سپورٹ کو اپنا نام بنایا میں بھی بڑے ہو کر ایسے ہی اپنے والدین کوسپورٹ کروں گی اور اپنا نام بناؤں گی‘‘
میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میڈیا نے کیا زہر میری بچیوں کے ذہن میں انڈیل دیا ۔۔۔۔۔
میرا سوال بہت سادہ سا ہے کیا آپ اپنی بیٹی کوقندیل بلوچ بنا نا چاہتے ہیں ؟
آپ کے چہرے پر ہوائیاں کیوں اڑنے لگتی ہیں صرف پوچھنا اتنا بھیانک لگ رہا ہے نا !لیکن اس بچی کا جواب یہی تھا ۔۔۔۔۔یہ بچی کوئی اور نہیں آپ کی بچی ہے ایک نظر دیکھیے اس کے بھولے بھالے چہرے کو کس خاموشی سے آپ کی ہماری نظروں کے سامنے ہمارے بچے ،بچیوں کی برین واشنگ کی جارہی ہے ۔۔۔۔۔
پلیز !بچا لیجیے اپنےبچے اور بچیوں کو اس جہنم کی آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ۔
يَا أَيُّهَا: الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ
ترجمہ اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔
اپنے بچوں کو صالح لٹریچر فراہم کیجیے اس لے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ۔
پروگرام کے اختتام پر میں نے اپنی تقریر میں حکمت کے ساتھ کہا ہم نصابی سرگرمیاں بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارتی ہیں لیکن اس کو اگر درست سمت نہ دی جائے تو یہ وہ تباہی لاتی ہیں جس کا علاج ممکن نہیں رہتا ۔۔۔۔ان کو سیدہ فاطمہ و خولہ کے کردار سے آگاہ کیجیے ۔۔۔۔انہیں سیدہ خدیجہ و عائشہ کی سیرت سے آگاہ کیجیے ۔۔۔۔۔۔۔اگر ہم نے انہیں اللہ و رسول ﷺ کی اطاعت و اتباع نہ سکھائی تو یاد رکھنا یہ ابلیس لعین کا آسان شکار بن جائیں گی ۔
ایسی ایکٹیوٹیز جو اس اسکول میں ہوئیں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے نظریہ پاکستان اور اسلامی تعلیمات کے یکسر منافی تھیں لہذا مجھے امید ہے کہ آئندہ آپ کے ہاں اس اسکول میں یہ فنکشن اب اس انداز میں نہیں ہو گا ۔
آپ سب سے بھی یہ ہی درخواست , اگر آپ اپنے بچوں کے اسکول میں اس طرح کا کوئی فنکشن ہو تے دیکھیں تو بھرپور رد عمل دیجیے اور ایسے اسکول سے اپنے بچوں کو نکال لیجیے ۔۔۔۔۔اور اسکول انتظامیہ کو بھی سخت تنبیہ کیجیے۔۔۔۔
کہیں بہت دیر نہ ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔
https://www.facebook.com/IslamicResearchSociety/ )
ڈاکٹر محمد اسمٰعیل بدایونی کی تحریر کردہ کتب ،مکتبہ انوارا لقرآن ، مصلح الدین گارڈن ،03132001740 مکتبہ برکات المدینہ بہادرآباد اور مکتبۃ الغنی پبلشرز ن زد فیضان مدینہ پرانی سبزی منڈی سے حاصل کریں ۔03152717547
Comments
Post a Comment
اس کے متعلق آپکی کیا رائے ہے؟
کمنٹ بوکس میں درج کر دیں