فلسطین اسرائیلی دارالحکومت

ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد مقبوضہ فلسطین سے فلسطینوں کا رہا سہا وجود بھی ختم ہو جائے گا۔ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کا صرف ایک اعلان نہیں ہے بلکہ چھپن سے زائد اسلامی ریاستوں کے منہ پر طمانچہ ہے کہ تم جو مرضی سمجھتے پھرو خود کو مگر تمہاری اوقات اب اتنی نہیں رہی کہ ہمیں فیصلوں سے روک سکو۔
عرب لیگ، او آئی سی، اسلامی ملٹری اتحاد یہ سارے کا سارا آخر کس کام کا ہے اگر ہم ایک فلسطین اور ایک کشمیر کا تصفیہ کروانے میں ناکام ہیں تو؟ آخر ہو کیا گیا ہے ہمیں بہ طورِ مسلمان۔ یوں جیسے غصے کی حالت میں اپنے ہی ہونٹ دانتوں سے کاٹنے والی قوم ہوں مسلمان۔ چودھویں اور پندرھویں صدی کے وسط میں یورپی ریاستیوں کے غیر مسلم سربراہ مہمات پہ جاتے وقت اپنی ریاستیوں کو مسلمان سلاطین کے پاس بہ طورِ امانت رکھ کے جایا کرتے تھے۔ مسلمانوں کی قوت کا یہ عالم تھا کہ غیر مسلم متنازعہ علاقوں میں سفر بھی نہیں کرتے تھے اس ڈر سے کہ مسلمان حاکم برا مان جائیں گے۔ اور آج کیا حالت ہو چکی ہے عالمِ اسلام کی؟ عراق کھنڈر، شام کھنڈر، لیبیا کھنڈر، یمن کھنڈر، افغانستان کھنڈر، کشمیر مقبوضہ، فلسطین مقبوضہ، چیچنیا مقبوضہ، سعودی عرب اپنے حال میں مست مڈل ایسٹ پر تسلط کے خواب دیکھ رہا۔ ایران اپنے حال میں مست مڈل ایسٹ پر قبضے کی کوشش میں مصروف ہے اور وہ اتحاد کیا ہوا جو ہماری اصل قوت تھی؟
عالمِ اسلام کی ایک اجتماعی قوت تھی جسے جہاد کہا جاتا تھا نائن الیون سے پہلے۔ اس کے بعد خود مسلمانوں ہی کے ہاتھوں جہاد کا تصور اس بری طرح مسخ ہوا ہماری آنکھوں کے سامنے کہ اب دنیا جہاد اور دھشت گردی کا فرق ہی بھول چکی ہے۔ واحد ایسی چیز جس سے غیر مسلم دنیا کے زہین ترین دماغ خائف رہا کرتے تھے وہ جہاد تھی۔ لیکن پھر بڑے ہی کامیاب طریقے سے جہاد کو فساد سے بدل دیا گیا۔ القاعدہ، داعش، بوکو حرام، تحریکِ طالبان پاکستان اور اس جیسی دیگر تمام تنظیموں نے جہاد کے نام پر مسلمانوں اور دیگر بے گناہ انسانوں کا اتنا خون بہایا کہ اب مسلمان بھی جہاد کا نام آنے پر سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ پتہ نہیں کون دھشت گرد ہے۔ یہ سارا کچھ مسلم علماء کی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا کسی نے بھی نہ سوچا کہ آنے والے آٹھ سے دس سالوں میں لوگ جہاد سے دور ہو جائیں گے۔ یعنی یہ منصوبہ اتنا کامیاب رہا کہ ہماری ہی چھری سے ہمیں زبح کر دیا گیا۔ جہاد جو کبھی عالمِ اسلام کی ڈھال تھی وہ شرپسندوں کے زریعے فساد بنا دیا گیا۔
اس کے علاوہ ایک اتحاد ہوتا تھا پوری امت میں۔ عرب ایران کے جتنے بھی تنازعے تھے امریکہ کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا جاتا تھا بلکہ گھر کی بات گھر میں سلجھائی جاتی تھی۔ لیکن مسلم دنیا کے عاقبت نا اندیش لیڈروں نے اس اتحاد کا بھی خاتمہ کر دیا۔ فرقہ واریت کی اندھی تقلید میں مڈل ایسٹ کا تنازعہ کھڑا کیا اور اس میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ آپس میں ٹکڑے ٹکڑے بھی ہو گئے اور شام و عراق بھی کھنڈرات میں تبدیل کر دیے۔ امریکہ صدام کو پھانسی دے رہا اور عرب اندر ہی خوش تھے۔ لیبیا میں جو کچھ ہوا عربوں کے سامنے ہوا دانت سے دانت تک نہ ہلایا کسی نے۔ اب بھی پاکستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ایران پر امریکہ حملہ کرے تو وہ بالکل ٹھیک ہو گا اور ایسے بھی موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ سعودیہ کی حاکمیت ختم ہو جائے بھلے امریکہ ہی کیوں نہ کر دے۔ کم بخت یہ بھول جاتے ہیں کہ غیر مسلم ہمیں سنی شیعہ کی نظر سے نہیں بلکہ صرف مسلمان کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ آپس کی اس لڑائی نے آج یہ حال کر دیا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ دولت مسلمانوں کے پاس ہے۔ تیل سونے اور گیس کے زخآئر مسلمانوں کے پاس ہیں۔ مگر 56 سے زائد اسلامی ریاستوں کو طاقت کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے امریکہ اپنا فیصلہ سنا دیتا ہے اور کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا ہے۔ خدا ہمارے حال پہ رحم کرے اور ہمیں غیرت نصیب کرے۔
سنگین علی زادہ۔

Comments

Popular posts from this blog

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

گستاخ رسول کو کتے نے برداشت نہ کیا