مطمئن قاتل۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
مطمئن قاتل۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
وہ پھٹ پڑا۔۔۔۔۔
کیا ہوا چھوٹ گیا نا ! ۔۔۔۔
رہا ہو گیا نا ! ۔۔۔۔
میں نے اس سے کہا :تم کہنا کیا چاہتے ہو؟
یہ ہی کہ یہ قانون ہے یا موم کی ناک ؟ کیوں چھوڑا ان قاتلوں کو ؟ اسکی آواز پھول رہی تھی ۔
--------------=------------==--------
بھئی ان کے اہلِ خانہ نے دیت لے لی بات ختم ہو گئی تم شریعت اور قانون دونوں سے بخوبی آگاہ ہو ۔۔۔۔۔
تم یہ بتاؤ!
تم جیسے سفاک لوگ آخر لٹکتی ہوئی لاشوں کو دیکھ کر ہی اپنے ان دیکھے جذبوں کی تسکین کیوں چاہتے ہیں ؟
مانا کہ قتل ہو گیا لیکن کیا اس قاتل کو سدھرنے کا ایک اور موقع نہیں ملنا چاہیے تھا؟
کو ن ہوتم لوگ جو انسانی جان بچ جانے پر ماتم کررہے ہو ؟
فریقین کے اتفاق کو تم تسلیم نہ کرنے والے کون ہوتے ہو ؟
اب جب کہ مقتول کے ورثاء نے قاتل کو معاف کر دیا ایک اور جان پھانسی پر لٹکنے سے بچ گئی ایک اور خون بہنے سے رہ گیا تو تمہیں آگ لگی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔شریعت ہی نے دی ہے نا معافی، دیت کا قانون قرآن وحدیث سے ہی ثابت ہے نا !!!!
تم اپنی خواہش کو قانون قرار کیوں دینا چاہتے ہو؟۔۔۔۔
میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا ۔
--------------=------------==--------
اس کا غصہ آسمان کو چھونے لگا :واہ بھئی واہ ۔۔۔تالیاں ہونی چاہیے تمہارے لیے
داد دینی چاہیے آپ جیسے لبرل دانشوروں کو جو معاشرے اور نسلوں کو اس سفاکی سے روند ڈالتے ہیں کہ ظالم بھی نہیں کہلاتے ۔
تم نے قرآن کا یہ حکم نہیں سُنا
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوۃٌ يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ البقرہ ۱۷۹
ترجمہ: اور اے اہل عقل! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے کہ تم (قتل وخونریزی سے) بچو ۔
قلم فروش مفکرو!
لٹکتی لاش کو دیکھ کر ہمیں تسکین نہیں ملتی بلکہ قاتل کی لاش دیکھ کر ہمیں اطمینان ہوتا ،ہمارے بچے بھیڑیوں سے محفوظ ہو گئے تم نے ایک قاتل کو نہیں بچایا بلکہ پوری انسانیت کو خوف اور خون کی دہلیز پر لا کر کھڑا کر دیا ۔
’’سدھرنے کا موقع ملنا چاہیے ‘‘ کبھی کبھی تم جیسے لبرل انسانیت کی دہائی اس انداز میں دیتے ہیں کہ دل چاہتا ہے تمانچوں سے تمہارے چہرے کو چوم چوم کر لال کر دیا جائے ۔۔۔۔۔
ممتاز قادری کی پھانسی کے تو آپ سب سے بڑے نقیب تھے ،آخر کیوں ؟
وادی حماقت کے اکلوتے باسی ! ہم انسانی جان کے بچ جانے پر ماتم نہیں کررہے ہیں ،ہم باقی انسانیت کے لاوارث ہونے پر نوحہ کناں ہیں ۔۔۔۔
تمہیں اب شریعت اور اس کے قوانین یاد آرہے ہیں ۔۔۔۔شاباش ! شاباش !
اصل میں شریعت کا تو تمہیں ’’ش ‘‘بھی نہیں معلوم ۔۔۔۔ شریعت کی بات بھی محض اس لیے کہ لوگوں کے دلوں میں اسلام کے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہو جائیں ۔۔۔
حرمتِ سود اور شراب پر شریعت کیوں یاد نہیں آئی؟۔۔۔۔۔ دیگر معاملات میں بھی شریعت یاد نہیں بس شریعت اپنے مخصوص معاملات کے لیے ۔۔۔۔۔شریعت کی غیر مشروط حمایت کرتے ہو ئے لبوں پر سکوت اور دلوں پر کیفیت مرگ کیوں طاری ہو جاتی ہے ؟
شریعت کی دہائی امیر کی حمایت میں کیوں ؟
غریب کی بے گناہی پر تمہاری آنکھیں بند کیوں ؟
تمہارے لیے ہی قرآن نے بیان کیا
وَاِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ
اور جب بلائے جائیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے تو جبھی ان کا ایک فریق منہ پھیر جاتا ہے،
وَاِنْ يَّكُنْ لَّهُمُ الْحَقُّ يَاْتُوْٓا اِلَيْهِ مُذْعِنِيْنَ
اور اگر ان میں ڈگری ہو ( ان کے حق میں فیصلہ ہو) تو اس کی طرف آئیں مانتے ہوئے
اَفِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْٓا اَمْ يَخَافُوْنَ اَنْ يَّحِيْفَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُوْلُهٗ ۭ بَلْ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ القرآن ۲۴:۵۰
کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے یا شک رکھتے ہیں کیا یہ ڈرتے ہیں کہ اللہ و رسول ان پر ظلم کریں گے بلکہ خود ہی ظالم ہیں
۔https://www.facebook.com/IslamicResearchSociety/ )
ڈاکٹر محمد اسمٰعیل بدایونی کی کتاب ##صدائے درویش #شائع ہو کر مکتبۃ الغنی کراچی پر آچکی ہے 03152717547
Comments
Post a Comment
اس کے متعلق آپکی کیا رائے ہے؟
کمنٹ بوکس میں درج کر دیں