سونا بنانے کا نسخہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر : محمد اسمٰعیل بدایونی
سونا بنانے کا نسخہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر : محمد اسمٰعیل بدایونی
بابو ! یہ سونا بنانے کا نسخہ لے لو بابو !ہم سب نے اسے بڑی حیرت سے دیکھا
دو بدّی کی ٹوٹی ہو ئی چپل پہنے ،پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ،غربت و تنگدستی کی سیاہی اس کے چہرے پر چھا چکی تھی ، فکر و غم کی شکنیں اس کے ماتھے پر نمایا ں تھیں،فاقوں کے سبب پچکے ہوئے گال اور اندر کودھنسی ہوئی آنکھیں اس کی غربت کا حال چیخ چیخ کر سُنا رہی تھیں اور وہ آواز لگا رہا تھا ۔
بابو! یہ سونا بنانے کا نسخہ لے لو بابو!اُس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتاب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
ہم دوست جو ریلی نکالنے کے لیے منصوبہ بندی کررہے تھے قہقہہ لگا کر ہنس پڑے ۔
ہمارے اس ہنسنے پر اس مجذوب نے ہم سب کو حیرت سے دیکھا وہ چپ نہ رہ سکا اور بے اختیار پوچھ بیٹھا :
تم کیوں ہنس رہے ہو ؟
اس کے اس سوال پر ہم ایک مرتبہ پھر ہنس پڑے ۔
تم کیوں ہنس رہے ہو؟ اس نے ایک مرتبہ پھر ہم سے پوچھا :
شاید وہ ہماری بات سمجھ چکا تھا کہنے لگا یہ نسخہ تو اصلی ہے میں سچ کہہ رہا ہوں اس کتاب میں سونا بنانے کا اصلی نسخہ موجود ہے چاہو تو تم آزمالو ۔
بابا جی !مان لیتے ہیں یہ اصل نسخہ ہے مان لیتے ہیں آپ سچ کہہ رہے ہیں ۔
لیکن اگر یہ نسخہ آپ کس ائیر کنڈیشنڈ شاپنگ مال کی کسی شاندار دکان میں بہترین ٹائی اور سوٹ پہن کر فروخت کررہے ہوتے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں لوگ لائین لگا کر یہ کتاب آپ سے خرید رہے ہوتے ۔
اب آپ ہی بتائیے بابا جی ! اگر آپ کے پاس سونا بنانے کا نسخہ ہوتا تو آپ کا یہ حال ہوتا ؟میں نے شائستگی کے ساتھ ان کی غربت اور مفلوک الحالی کی نشاندہی کی ۔
ہاں یہ تو ہے مجذوب نے گہری سوچ میں ڈوبتے ہوئے کہا
تم لوگ یہاں کیا کررہے ہو ؟ مجذوب نے ہماری طرف دیکھتے ہو ئے پوچھا :
ہم سب یہاں ناموس رسالت ﷺریلی نکالنے کے لیے جمع ہوئے ہیں ہم میں سے ایک نے جواب دیا
اچھا !اچھا !
اچھا ہےلیکن دیر پا نہیں ہے تمہارے ریلی نکالنے سے تو یہ مسئلہ حل ہو گا نہیں ، ریلی نکالنے سےاگر حل ہونا ہوتا تو کب کاحل ہو چکا ہوتا ۔2005 سے ہر سال یہ سلسلہ تسلسل سے جاری ہے ۔مجذوب نے ہماری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور آگے بڑھ گیا ۔
ہم حیرت سے اس مفلوک الحال مجذوب کو دیکھ رہے تھے اس کے ان دو جملوں نے اسےہماری نظر میں دانش ور بنا دیا تھا ۔
میں دوڑ کر اس مجذوب کے پیچھے گیا ۔
پھر اس مسئلے کا کیا حل ہے ؟میں نے نہایت ادب سے پوچھا :
اسلام اور قرآن کی تبلیغ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجذوب نے جذب کی کیفیت میں کہا
یعنی ہم ان کو اسلام اور قرآن کی دعوت دیں ۔میں نے تصدیق چاہی
ہاں مگر جب تم انہیں دین اسلام اور قرآن کی دعوت دو گے تو وہ ہنسیں گے۔
مجذوب کا یہ انکشاف میرے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھا ۔
وہ کیوں ؟
تم انہیں یہ بتاؤ گے یہ کتاب نسخہ کیمیا ہے ۔۔۔۔اس کتاب میں کامیابی کے راز ہیں ۔۔۔۔عروج کا کلیہ پوشیدہ ہے ۔۔۔۔اور وہ سب کچھ موجود ہے جو اس کائنات میں موجود تمام سربستہ رازوں کو تم پر عیاں کر دے گا ۔۔۔۔۔اس کتاب کا موضوع انسان ہیں ۔۔۔۔اس میں ہر شئے کا بیان ہے ۔۔۔اس میں ماضی کے سچے واقعات بھی ہیں اور مستقبل کی پیشن گوئیاں بھی ۔۔۔۔اس کتاب میں محبت و نفرت کے پیمانے بھی ہیں اور امن و جنگ کے قواعد بھی ۔۔۔۔۔تو وہ تم پر ہنسیں گے
لیکن کیوں ؟میری چیخ میرے حلق میں ہی گھٹ کر رہ گئی ۔
وہ دیکھتے ہیں کہ تم پر زوال پذیری کا لباس زیب تن ہے اور بد دیانتی کے پیوندوں نے اسے اور بھی بد نما کر دیا ہے
تمہارے چہروں پر ہوس زر کی سیاہی اتنی نمایاں ہو چکی ہے کہ اس نے تمہارے چہرے کے نقوش تبدیل کر دئیے ہیں
اندر کو دھنسی ہوئی آنکھیں تمہاری اخلاقی پستی کی گواہی دے رہی ہیں ۔
تمہارا معاشرتی رہن سہن اور رسم و رواج کا حال میری اس دو بدّی کی چپل سے بھی زیادہ بد حال ہو چکا ہے ۔
تمہارا معاشی دیوالیہ پن کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔
قدرت نے تمہیں قدرتی وسائل سے مالا مال کیا مگر تم پھر بھی فاقوں کے ساتھ قرضوں پر زندگی گزار رہے ہو ۔
تم علم و دانش کی کتاب انہیں دینا چاہتے ہو تہذیب و تمدن کے علمبردار بننا چاہتے ہو مگر تمہارا حال یہ ہے
تم مرچوں میں برادہ ملا کر بیچتے ہو ۔۔۔۔میڈیسن میں پانی اور چاک ملا کر جعلی میڈیسن تیار کرتے ہو ۔۔۔۔دودھ میں پانی ملانا تمہارا فرض عین ہے ۔۔۔۔سونے میں پیتل ملاتے ہو ۔۔۔۔بجری میں مٹی ملاتے ہو۔۔۔۔کم ماپتے تولتے ہو
تمہارے ہسپتال میں ڈاکٹر کم اور قصائی زیادہ ہیں ۔۔۔۔رشوت تمہارے ہاں سرکاری فیس بن چکی ہے ۔۔۔انصاف تمہاری عدالتوں میں رسوا ہو رہاہے ۔۔۔۔تعلیم تمہارے ہاں تجارت بن چکی ہے ۔۔۔۔کرپشن تمہارے ہاں عروج پر ہے ۔۔۔۔پارٹی کو سیمپل کچھ بھیجتےہو اور مال کچھ ۔۔۔
دو نمبر طریقے سے مال بنانے کی فکرمیں مبتلا لوگو!
حال یہ ہے تمہارا حرام کے نوٹ جیب میں ڈال کر حلال گوشت کی دکان ڈھونڈتے ہو ۔تم۔۔۔۔۔تم ۔۔۔اس کی انگلی میری طرف تھی
اپنے اپنے شعبوں کی مسند پر بیٹھ کر بڑی بڑی باتیں کرتے ہو اور عمل تمہارا ،تمہارے قول کے بر عکس ہوتا ہے
لیکن بابا جی ! یہ قرآن تو اللہ کی کتاب ہے اس میں جو لکھا ہے سچ ہے جو چاہے اس کو آزمالے ۔
بیٹا ! وہ مان لیتے نسخہ کیمیا ہے جب تم اس کے ایمانی مرکب سے اپنے چہرے کو نورانی بنا لیتے ۔۔۔دیانت داری کا لباس تمہارے جسم پر نمایا ں ہوتا ۔۔۔۔طہارت و پاکیزگی کی خوشبو اس سے اٹھ رہی ہوتی ۔۔۔۔۔تمہاری گفتگو تمہارے اخلاق کی گواہی دے رہی ہوتی ۔۔۔۔تمہاراعمل تمہارے کردار کا ضامن ہوتا ۔۔۔تمہارے قول فعل میں کوئی تضا د نہیں ہوتا ۔۔۔۔تمہارا رہن سہن اسلامی ہوتا ۔۔۔۔تمہارا معاشی نظام سود سے پاک ہوتا ۔۔۔۔رشوت کا دور دور تک کوئی نشان نہ ہوتا ۔۔۔۔حلال و طیب کمائی تمہارے اطمینا ن کو ظاہر کرتی ۔۔۔۔۔عبادت کے لیے تمہاری مساجد آباد ہوتیں ۔۔۔۔خلق خدا کی خدمت تمہارا شعار ہوتی تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں مغرب و مشرق کا ہر انسان لائین لگا کر اسلام کی دولت کو لے رہا ہوتا ۔
اب آپ ہی بتائیے !جس قوم کا حال یہ ہے کہ اس کے پاس ایک ایسی کتاب موجود ہے جس میں عروج کے قوانین اور زوال کے اسباب تحریر ہیں ۔۔۔جس میں کامیاب زندگی گزارنے کا نسخہ موجود ہے ۔۔۔۔کائنات کے سربستہ راز جس کتاب میں ہیں وہ کتاب اس کے پاس موجود ہے ۔لیکن اس کا حال کیساہے
کیا دنیا تمہاری دعوت کو قبول کر لے گی ؟
کیا تم سے وہ یہ کتاب حاصل کرنا چاہے گی ؟
مجذوب نے میری اجتماعی حالت کی نشاندہی کی اورآواز لگاتے ہوئے آگے بڑھ گیا
بابو ! سونا بنانے کا نسخہ لے لو بابو!
ایک پرانی تحریر
Comments
Post a Comment
اس کے متعلق آپکی کیا رائے ہے؟
کمنٹ بوکس میں درج کر دیں