مسلماں نہیں ،راکھ کا ڈھیر ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
مسلماں نہیں ،راکھ کا ڈھیر ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
آپ مجھے کہاں لے جا رہے ہیں ؟ میں نے درویش کی جانب دیکھتے ہوئے کہا
لیکن درویش چلتا رہا اور مجھے بھی مجبوراً اسی کے پیچھے خاموشی سے چلنا پڑا یہاں تک کہ درویش مجھے میوزیم میں لے آیا ۔
میں کبھی میوزیم میں موجود جانوروں کو دیکھتا جن کی کھالوں میں بھس بھر کر میوزیم سجا دیا گیا تھا کبھی درویش کو دیکھتا
درویش نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا :تمہیں حیرت ہو رہی ہو گی میں تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں؟
تم اس شیر کو دیکھ رہے ہو ؟ درویش نے شیر کی بھس بھری ممی کی جانب اشارہ کیا ۔
جی بالکل دیکھ رہا ہوں ۔
یہ شیر جب جنگل میں دھاڑتا تھا تو جنگل کے جانور سہم جاتے تھے ۔۔۔۔کوئی آدمی جنگل کے شیر کو اپنے روبرو دیکھ لے تو وہ کانپ جاتا ،ہوش وحواس گم ہو جاتے ۔۔۔۔لیکن مجھے یہ بتاؤ
اس سے لوگ ڈر کیوں نہیں رہے،یہ جنگل کا بادشاہ سب کے لیے تفریح کیوں بنا ہوا ہے ؟ درویش نے میوزیم میں آس پاس موجود لوگوں کی جانب دیکھ کر کہا ۔
میری نگاہیں ایک مرتبہ پھر اس مردہ شیر پر ٹک گئیں ،میں نے شیر سے نگاہ اٹھا کر حیرت سے درویش کی جانب دیکھا اور کہا :اس لیے کہ یہ مردہ ہے ۔
مردہ شیر کی کوئی قیمت نہیں ہو تی۔۔۔۔۔۔اس کا مذاق اڑیا جاتا ہے اس لیے یہ لوگوں کی تفریح کا ذریعہ ہے
بس یہ ہی بات تمہیں سمجھانا مقصود تھی تم مسلمان اس دور کے وہی مردہ شیر ہو جن کی کھال میں بھس بھرا ہوا ہے ۔۔روحِ اسلام تم سے دور ہو چکی ہے ۔۔۔۔۔اور دنیا کے عجائب گھر میں اس اُمت کو اقوامِ عالم کی تفریح کے لیے سجا دیا گیا ہے ۔۔۔۔تمہارے ساتھ کیا غضب کی تفریح کی جا رہی ہے ۔۔۔۔تم ہی اس وقت دنیا میں سب سے بڑے مظلوم ہو اور یہ دنیا تمہیں ہی سب سے بڑا دہشت گر د کہہ رہی ہے ۔۔۔۔
تمہارے علماء تمہیں فرقہ واریت کی دلدل سے نکالنے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔۔۔۔باتیں سب ہی کی یہ ہیں کہ اتحاد ہونا چاہیے اختلاف ختم ہونا چاہیے ۔۔۔۔فرقہ واریت زہر قاتل ہے ۔
لیکن جب مسئلے کے حل کی طرف جاؤ تو سرکردہ مولوی صاحبان کہتے ہیں پہلے بُعد تو دور ہو جائے انا للہ وانا الیہ راجعون
درویش کی بات سُن کر میں نے بے ساختہ یہ شعر پڑھا
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس ِ زیاں جاتا رہا
اے میرے نوجوان !
تیری رگوں میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِ کا ورد کرنے والوں کا لہو دوڑ رہا ہے
اپنی قوم کو ۔۔۔۔ان مظلوم و لا چار مسلمانوں کو ۔۔۔۔ان اسلام کے نام لیواؤں کو اقوامِ عالم کے عجائب گھر میں مزید تفریح کا ذریعہ بننے سے بچا لو ۔۔۔۔۔کشتی اسلام کی نگہبانی تمہارے حصے میں آ چکی ہے ۔۔۔۔۔
روح اسلام کے بغیر شیر ہونے کے دعوے صرف جگ ہنسائی کا سبب بنیں گے ۔۔۔۔۔بڑے بڑے القابات اور شیرو شہنشہاہ اور رستم زماں کہلانے سے بات نہیں بنے گی ہاں البتہ اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔
اے نوجواں !
ایک وقت تھا تیرے اسلاف کا نام سُن کر ان کے رستم کانپ جاتے تھے ۔۔۔۔حیدر کرار کا نام سُن کر خیبر کے یہودی لرز جاتے تھے۔۔۔اس مسلمان کی اپنی ہی ایک شان تھی ۔۔۔۔
اے نوجوان !اسے یہ شان لوٹا دینا اے نوجوان وعدہ کر ! تم یہ کام ضرور کرو گے ۔ درویش نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اے نوجوان ! اقبال کے یہ الفاظ تیرے نام
دلِ طُورِ سینا و فاراں دو نِیم
تجلّی کا پھر منتظر ہے کلیم
مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زُنّار پوش
تمدّن، تصوّف، شریعت، کلام
بُتانِ عَجم کے پُجاری تمام!
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمّت روایات میں کھو گئی
لُبھاتا ہے دل کو کلامِ خطیب
مگر لذّتِ شوق سے بے نصیب!
بیاں اس کا منطق سے سُلجھا ہُوا
لُغَت کے بکھیڑوں میں اُلجھا ہُوا
وہ صُوفی کہ تھا خدمتِ حق میں مرد
محبّت میں یکتا، حِمیّت میں فرد
عَجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا
بُجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے
میری نگاہیں میوزیم میں موجو د شیر کو دیکھ رہی تھی اور پھر مجھے حال کے آئینے میں اپنا چہرہ دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔
https://www.facebook.com/IslamicResearchSociety/ )
ڈاکٹر محمد اسمٰعیل بدایونی کی کتاب ##صدائے درویش #شائع ہو کر مکتبۃ الغنی کراچی پر آچکی ہے 03152717547
Comments
Post a Comment
اس کے متعلق آپکی کیا رائے ہے؟
کمنٹ بوکس میں درج کر دیں