کلبھوشن کے یار ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
کلبھوشن کے یار ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
بم دھماکے کے بعد لاشیں خاک و خون میں نہا چکی تھیں ۔۔۔۔زخمیوں کی چہرے پر کرب کی شدت صاف نمایاں تھی ۔
دوسرے دن سوگ میں شہر مکمل بند تھا ۔۔۔۔۔
منظر بہت دردناک تھا جب معصوم بچہ اپنی روتی ہوئی ماں سے سوال کرتا امی ! بابا بات کیوں نہیں کررہے ؟تو مجلس غم میں ایک نئی آہ و بکا کا شور بلند ہوا ۔۔۔۔
اب کبھی بات نہیں کریں گے تمہارے بابا ۔۔۔۔اور بیوہ عورت ایک مرتبہ پھر چیخ کر رونے لگتی ۔۔۔۔
بوڑھے والدین کی نگاہ اپنے جوان بیٹے کا انتظار میں دہلیز کا طواف کررہی ہوتی ہیں کہ خون میں ڈوبی لاش سائرن بجاتی ایمبولینس میں دہلیز پر پہنچ جاتی ہے ۔۔۔۔لاش نوجوان کی نہیں ہوتی صرف ۔۔۔۔سہارے ٹوٹ جاتے ہیں امید یں بھی کفن پہن لیتی ہیں ۔۔۔۔بہن کی ڈولی اٹھنے سے پہلے حسرت و یاس کی تصویر آہ !!!! ۔۔۔۔۔زندگی زندہ درگور ہو جاتی ہے جناب ! حسرتوں کا مزار اس قدر وحشت ناک ہو تا ہے کہ اس میں اپنی یادیں ، ماضی و مستقبل سب ہی دفن ہو جاتے ہیں ۔
چند لائن میں موجود درد والم ،غم ،دکھ ،امیدوں کی موت، سسکتی زندگی اور قدم قدم پر زندگی کو گھسیٹتے بچے ،عورتیں اور بوڑھے والدین کا مجرم ۔۔۔۔کلبھوشن ۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔تم کلبھوشن کے یار
میں کلبھوشن کا یار کیسے ہو گیا ؟اس کی پوری تقریر سُن کر میں تو اس پر برس پڑا
کیسے ہو گیا ؟ بتاتا ہوں تمہیں تم کیسے ہو کلبھوشن کے یار ؟
شاید وہ دن بھول گئے تم جب تم حقوق یا موت کا نعرہ بلند کرتے تھے۔۔۔۔لسانیت کی بنیاد پر تم مقتل سجاتے تھے ۔۔۔۔حقوق کے نام پر مرثیے پڑھنے والو!غریب کی جھونپڑی کا چراغ گل کرکے تم نے مال ودولت کے انبار جمع کر لیے ۔۔۔۔ملک میں موجود مقتل گاہوں کے اوپر تم نے ملک و بیرونِ ملک خوب محل بنائے ہیں ۔۔۔۔
۔۔۔فرقہ واریت کے نام پر تمہاری آنکھوں میں خون اترتا ہو یا نہیں تمہارے منہ سے خون ٹپکتا ضرور تھا ۔۔۔۔۔پھر تم نے وہ سب کیا جو کلبھوشن چاہتا تھا ۔۔۔۔تم نے اسلحے کی منڈی سجائی اور کیا خوب چلائی کہ لوگوں نے راشن کی جگہ بندوقوں اورگولیوں کا ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ۔
۔۔۔۔۔آج تم پھر اسی کلبھوشن کے مدد گار بننے جا رہے ہو ۔۔۔۔
اے سیاسی ، مذہبی ، معاشرتی لیڈرو !
تمہیں لت پڑ گئی ہے جلسے ،جلوس ، دھرنے ، احتجاج اور ریلیوں کی ۔۔۔۔۔یہ لیڈری کا نشہ ہے جو تمہیں مدہو ش رکھتا ہے اور تمہارا دشمن بھی یہ ہی چاہتا ہے کہ تم زیادہ سے زیادہ دیر مدہوش رہو ۔
مجھے معلوم ہے یہ جملے تم پر بہت گراں ہیں ۔۔۔۔تم اس مغربی طریقہ احتجاج کے مجھے ان گنت فائدے گنوا دو گے ۔۔۔۔لیکن فکری غذا کا اہتمام تم سے پھر بھی نہ ہو سکے گا ۔۔۔۔
پاکستان اس وقت حالات کے بہت نازک دور سے گزرر ہا ہے ہمارے درمیاں موجود بہت سے کلبھوشن ہمارے کسی بھی کمزور لمحے کی تلاش میں ہیں کہ وہ ایک مرتبہ پھر آنسو،درد والم ،غم ،دکھ ،امیدوں کی موت اور سسکتی زندگی کو دیکھ کر قہقہے لگا سکیں ۔
تم ایک مرتبہ جائزہ لے لو ۔۔۔۔تم نا دانستہ طور پر کلبھوشن کے یار تو نہیں ہو ؟
تم آگ و خون کے سہولت کار تو نہیں ہو ؟
پھر بھی تمہیں سمجھ نہیں آئے تو ایک جلوس ، ریلی ، دھرنا اور احتجاج اپنے حال پر اپنے خلاف بھی کیجیے ۔
۔https://www.facebook.com/IslamicResearchSociety/ )
ڈاکٹر محمد اسمٰعیل بدایونی کی کتاب ##صدائے درویش #شائع ہو کر مکتبۃ الغنی کراچی پر آچکی ہے 03152717547
Comments
Post a Comment
اس کے متعلق آپکی کیا رائے ہے؟
کمنٹ بوکس میں درج کر دیں