علم اور علماء کی فضیلت از میاں محمد شاہد شفیق

علم اور علماء کی فضیلت
از
میاں محمد شاہد شفیق

قُل ھَل یَستَوِی الَّذِینَ یَعلَمُونَ وَ الَّذِینَ لَا یَعلَمُون

تم فرماؤ کیا برابر ہیں علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے  (سورۃ الزمر ، آیت نمبر 9)

یَرۡفَعِ اللّٰہُ  الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ  اُوۡتُوا  الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ؕ       ﴿ المجادلہ ، آیت نمبر ۱۱﴾

اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا

علم ایک لازوال دولت ہے جس کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ درج بالا آیات مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے
اب اسی پہ کچھ احادیث درج کی جاتی ہیں

حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  دو آدمیوں  کا ذکر کیا گیا،ان میں  سے ایک عالِم تھا اور دوسرا عبادت گزار،توحضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ہے، پھرسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ،اس کے فرشتے،آسمانوں  اور زمین کی مخلوق حتّٰی کہ چیونٹیاں  اپنے سوراخوں  میں  اور مچھلیاں  لوگوں  کو(دین کا) علم سکھانے والے پر درود بھیجتے ہیں۔

(ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، ۴/۳۱۳، الحدیث: ۲۶۹۴)

حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’(قیامت کے دن) عالم اور عبادت گزار کو لایا جائے گا اور عبادت گزار سے کہا جائے گا’’تم جنت میں  داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا کہ تم ٹھہرو اور لوگوں  کی شفاعت کرو کیونکہ تم نے ان کے اَخلاق کو سنوارا ہے۔
( شعب الایمان، السابع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضل العلم وشرفہ، ۲/۲۶۸، الحدیث: ۱۷۱۷)

علم کی مجالس جنت کے باغات ہیں ۔
( معجم الکبیر، مجاہد عن ابن عباس، ۱۱/۷۸، الحدیث: ۱۱۱۵۸)
مرنے کے بعد بھی بندے کو علم سے نفع پہنچتا رہتا ہے۔
( مسلم، ص۸۸۶، الحدیث: ۱۴(۱۶۳۱)

آیات کریمہ اور احادیث کے بعد کچھ اقوال اسلاف اور تاریخی حقائق بیان کیے جارہے ہیں تاکہ علم کی اہمیت مزید واضح ہو جائے

حضرت بایزید بسطامی کا فرمان ہے کہ ایک عالم کی طاقت ایک لاکھ جاہلوں سے زیادہ ہوتی ہے

امیر تیمور ایک عظیم فاتح گزرا ہے جسے دنیا
Tamerlane:The Earth shaker
اور
Taimoor:The great
کے نام سے یاد کرتی ہے
54 ممالک کو فتح کرنے والا یہ شخص جس ملک کو فتح کرتا اس کی آبادی قتل کرنے کے بعد اسے جلا کے راکھ بنا دیتا۔ اسکا نام لوگوں پہ کپکپاہٹ پیدا کردیتا مگر ہوا یوں کہ ایک دن اس نے ایک اہم اور فوری پیغام بھیجنا تھا اور اصطبل میں کوئی گھوڑا موجود نہ تھا اس نے قاصد سے کہا کہ جہاں کوئی گھوڑا نظر آئے اس پہ سوار ہوجانا چنانچہ راستے میں ایک مقام پہ اس دور کے بہت بڑے فاضل علامہ سعد الدین تفتازانی (علامہ کی تصانیف آج بھی درس نظامی کے نصاب میں شامل ہیں) خیمہ زن تھے اور خیمے کے سامنے کچھ گھوڑے بندھے ہوئے تھے۔ قاصد نے بلا اجازت ایک گھوڑا کھول لیا ابھی سوار ہو ہی رہا تھا کہ ملازمین نے پکڑ کر خوب مارا۔ اب یہ شکایت امیر تیمور کو پہنچی تو وہ 54 ممالک کا فاتح ان الفاظ کے علاوہ کچھ نہ کہہ پایا کہ
"میں ایسے شخص کا کیا بگاڑ سکتا ہوں جس کا قلم ہر شہر اور ہر ملک کو میری تلوار سے پہلے فتح کر چکا ہے"

  اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ علم کے سامنے دنیاوی بادشاہت بھی کوئی وقعت نہیں رکھتی اور سلاطین کو علماء کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے

اسی لئے تو سلطان مراد عثمانی کہا کرتا تھا کہ اگر مجھے میری تقدیر کا اختیار دیا جاتا تو میں معلم (علم سکھانے والا ، استاذ ، Teacher ) بنتا
دیکھیں کہ علم ایسی دولت پہ جسے بادشاہ اپنی بادشاہت پہ ترجیح و فوقیت دیتے ہیں
  
عبد اللہ بن مبارک عہد ہارون کے مشہور فقیہ و محدث تھے۔ ایک مرتبہ وہ #رقہ (عراق کا ایک شہر) میں تشریف لائے تو انسانوں کے ایک بے پناہ سیلاب نے ان کا استقبال کیا۔ اتفاقا اس روز ہارون الرشید بھی اپنی بیگم کے ساتھ وہیں تھا۔ یہ منظر دیکھ کر ہارون الرشید سے ان کی بیگم کہنے لگی کہ یہ ہے حقیقی سلطنت کہ ایک دنیا زیارت کے لئے امنڈ پڑی ہے تمہاری حکومت بھی کوئی حکومت ہے کہ جب تک پولیس ڈنڈا نہ چلائے ایک آدمی بھی تمہارے استقبال کو نہیں آتا

ایک دن امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ مسجد سے باہر تشریف لائے تو ایک ہجوم آپ کی دست بوسی کیلئے آگے بڑھا ایک سید زادہ یہ منظر دیکھ کر امام صاحب کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یہ مقبولیت اور شان و شوکت آپ کو کیسے نصیب ہوئی ؟
میں سید زادہ ہوں مگر مجھے تو کوئی پوچھتا تک نہیں

امام فرمانے لگے اے سید زادے! تمہارے آباؤ اجداد علم و ہدایت کے روشن مینار تھے اور میرے اسلاف بے علم و گمراہ
میں نے تیرے آباء کی میراث لے لی اور تونے میرے آباء کی

یعنی یہ شان و شوکت اور قدر و منزلت علم کی بدولت ہی عطا ہوتی ہے

صاحبو! یہ تو علم و علماء کی فضیلت ہے مگر علم یہ کامل فضیلت عالم کو اس وقت ہی عطا کرتا ہے جب اس علم پہ عمل بھی کیا جائے
اللہ پاک ہمیں علم حاصل کرنے اور اس پہ عمل و استقامت کی توفیق عطا فرمائے

Comments

Popular posts from this blog

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

گستاخ رسول کو کتے نے برداشت نہ کیا