سیرت اکاڑوی: ترتیب و تحقیق: ارسلان احمد قادری اصمعی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولاھم یحزنون

👈موضوع : 🌹سیرت اوکاڑوی 🌹

ترتیب و تحقیق  :ارسلان احمد قادری اصمعی

شہر اوکاڑہ کی پہچان و جان یا تو حضرات اولیائے کرمانوالہ شریف ہیں یا حضرت سیدی و سندی و مولائی، شیخ الاسلام و المسلمین، شیخ القرآن والتفسیر، شیخ الحدیث، شیخ الفقہ، شیخ الادب، شیخ العلوم، شیخ العرب والعجم، شءخ العلماء والفضلاء ،شیخ المشائخ، شیخ الشریعہ ،شیخ الطریقہ، قبلہ حضرت علامہ مولانا الحاج الحافظ، القاری المفتی غلام علی اشرفی قادری رضوی اوکاڑوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ

آپکا  مختصر تذکرہ لکھنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں اول خیال تھا کہ مفصل لکھوں مگر اتنی لمبی تحریر کون پڑھتا ہے اس لیے تحریر کو مناسب کردیا ہے زندگی نے وفا کی تو کتابی شکل میں تفصیلاً لکھنے کی سعی کروں گا

👈نام :غلام علی اشرفی قادری

👈کنیت:ابولفضل

👈ولدیت : سلطان احمد چوہدری صاحب مرحوم

👈نسب و قومیت: گورجر گوت کھٹانہ

👈مولد: رضا آباد (ببانیہ) گجرات

👈تاریخ پیدائش : 11جون 1920ء(جمعتہ المبارک رمضان 1338ھ)

ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں چک عمر سے پرائمری تک حاصل کی  اور پھر " جوڑا کرنانہ "مڈل اسکول سے

ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز مناظر اسلام فاتح مرزائیت مفتی شیخ محمد عبداللہ صاحب علیہ الرحمہ سے کیا بعد میں حزب الاحناف لاہور کی شاخ جالندھر سے مولانا حافظ عبدالمجید گورداسپوری مرحوم سے گلستان، بوستان، مالابُد پڑھی اور کافیہ تک صرف و نحو علامہ عبدالقادر کاشمیری صاحب سے پڑھیں اور پھر استاذ العلماء حضرت علامہ عبدالجلیل ہزاروی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوکر تمام کتب درسیہ متد اولہ پڑھیں ہزاروی صاحب کی نظر نے جلد ہی آپکو کندن بنادیا یہاں تک آپ 1938ء میں موقوف علیہ سے فارغ ہوگئے (یاد رہے آپ 1935ء کے اوائل میں یہاں داخل ہوئے تھے) ہوشیار پور کے مولانا غلام یاسین مرحوم کے کہنے پر کچھ عرصہ کیلئے حضرت صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ کی خدمت رہ کر تقریر اور مناظرے میں مہارت تامہ حاصل کی

👈علم دین کی طلب :

حضرت مولانا غلام علی اوکاڑوی صاحب نہایت سادہ طبیعت ،خوش اخلاق ایک جید عالم دین تھے آپ کو اپنے زمانہ طالب علمی میں ہی کتب اسلامیہ کے مطالعے اور تحقیق کا جنونی شوق تھا  اور آپ اُس زمانے میں بھی فضولیات سے بچ کر اپنا زیادہ  تر وقت مطالعے میں گزارتے اُس وقت آپ کے زیر مطالعہ اکثر یہ تفاسیر رہتی بیضاوی، کشاف، مدارک، خازن، روح البیان------------

👈بیعت ، اجازت و خلافت

آپ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کو
جامع شریعت و طریقت حضرت علامہ مفتی ابوالبرکات سید احمد صاحب الوری علیہ الرحمہ سے شرف بیعت حاصل تھا
ان کے علاوہ سیدنا پیر طاہر علاؤالدین الدین گیلانی بغدادی علیہ الرحمہ سے سلسلہ قادریہ و اعمال مشائخ کی خصوصی اجازت عطا کی
قطب مدینہ شیخ ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ نے تمام سلاسل کی اجازت و خلافت عطا کی
قاہرہ کے شیخ سید حسین قادری شازلی سے سلسلہ شاذلیہ کی اجازت و خلافت عطا کی
شام کے مشہور شیخ محمد رمضان بوطی کردی خالدی نقشبندی نے بالخصوص سلسلہ خالدیہ کی اجازت عطا کی اور آپ سے بھی اجازت طلب کی

👈تعلیم و تدریس

آپ نے اولاً دورانِ تعلیم ہی جامع مسجد شیخاں ضلع ہوشیار پور خطابت اختیار کی
ہوشیار پور کی مسجد شہر کی سب سے بڑی مسجد تھی اس مسجد میں آپ دوسال تک خطیب رہے پھر لالہ موسیٰ اور پھر وہاں سے گوھڑی منتقل ہوگئے اسی دوران جلال الملت محدث حافظ سید جلال الدین صاحب علیہ الرحمہ کے ارشاد پر چیلیاں والا کے قریب  نواں پنڈ میں مشہور غلام خانی مبلغ اور مناظر عنایت اللہ شاہ گجراتی سے نہایت کامیاب مناظرہ ہوا اور آپ فتح سے ہمکنار ہوئے 1949ء تک یہیں قیام رہا پھر قیام پاکستان کے بعد 49ء میں ہی ستلج کاٹن مل کے افسروں اور مزدوروں کی دعوت پر دینی مصلحت کے تحت اوکاڑہ تشریف لے آئے اور یہاں آکر بھی صبح و شام درس قرآن و حدیث کا سلسلہ شروع کردیا آپکے پہلے شاگردوں میں آپ کے داماد مولانا اشرف جلالی مرحوم اور خطیب پاکستان مولانا شفیع اوکاڑوی صاحب. علیہ الرحمہ ہیں خطیب پاکستان کی تحریک پر ہی فروری 1954ء کو جی ٹی روڈ اوکاڑہ پر جامعہ جنفیہ دارالعلوم اشرف المدارس کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا جس سے ہزاروں علماء فیض یاب ہوکر پوری دنیا میں دین متین کی خدمت کررہے ہیں

👈علمی و دینی خدمات

علمی و دینی خدمات میں سرفہرست دارالعلوم کا قیام ہے جہاں سے کئی جید علماء بن کر نکلے ہیں نیز جامعہ مسجد غوثیہ و جامعہ غوثیہ رضویہ کچہری بازار اوکاڑہ ،مدرسہ برکات القرآن بالمقابل کمپنی باغ اوکاڑہ بھی آپ ہی کی کاوش ہے اللہ تعالیٰ نے آپکو قرآن فہمی پر مہارت تامہ عطا فرمائی آپکا درس قرآن سننے کیلئے لوگ دور دراز سے آتے تھے آپ ہر سال درس قرآن میں نئے نئے  نکات اور علم و جوہر کے موتی بیان فرماتے اسی وجہ آپکو "شیخ القرآن "،کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے اِس کے علاوہ آپ کے پاس پوری دنیا سے افتاء آتے تھے اور آپ اِن کا مدلل اور تسلی بخش جواب عطا فرماتے تھے جب کوئی سائل آپکو کچھ نذرانہ دینا چاہتا تو آپ منع فرما دیتے اور فرماتے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ میری سوانح میں یہ لکھا جائے کہ

" نہ میں فتوی فروش ہوں، نہ تعویذ فروش ہوں نہ ضمیر فروش ہوں اور نہ دین فروش ہوں یہ اس لیے کہتا ہوں کہ بعد والی نسل اسے پڑھ کر اچھا تاثر لے اور اہل علم اپنی زندگیوں کو محض للہِ دین کیلئے وقف کردیں "

آپکے یہی اصول تھے جن کی بنا پر آپ نے کبھی صدر ضیاءالحق کی چاپلوسی و خوشامد نہیں کی ------جنرل ضیاء الحق آپکی بہت عزت و تکریم کرتا تھا اور آپکے دارالعلوم میں بھی حاضری دیتا رہتا تھا جس کی وجہ سے آپ اس سے ہر قسم کا فائدہ اُٹھا سکتے تھے مگر آپ نے ساری زندگی ایک چھوٹے سے گھر میں گزار کر سادہ لباس و خوارک تناول فرما کر اعلی مثال قائم کی مگر ضیاء الحق کے آگے کبھی نہ جھکے اور نہ ہی اس کے ٹکڑے  اُٹھائے

آپ  عام واعظوں کی طرح نہیں تھے بلکہ آپ کا بیان زیادہ تر کتاب و سنت سے ہی اخذ شدہ ہوتا تھا اہل سنت کو دلائل شرعیہ اور مخالفین کے مسلمہ اصولوں سے مُبرہن کرتے اور بدمذہبوں اور بددینوں کا رد حکمت اور موعظہ حسنہ سے فرماتے
آپکو عربی زبان پر مکمل دسترس حاصل تھی آپ عرب شریف میں جاکر فصیح عربی میں خطاب بھی فرماتے تھے

👈تحریک ختم نبوت میں حصہ

آپکا ختم نبوت تحریک میں بھی نمایاں حصہ و خدمات ہیں جیسا کہ
1-آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار عبدالقیوم کے ساتھ مل کر قادیانیوں کے خلاف بل پاس کروایا اور پھر اسلامی دفعات کی تدوین میں مدد کی
2-دستور پاکستان میں مسلمان کی تعریف شامل کروانے کا سہرہ شاہ احمد نورانی علیہ الرحمہ کے سر ہے آپ فرماتے ہیں کہ

تمام اپوزیشن پارٹیز کی طرف اس کیلئے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں اہلسنت کی طرف سے علامہ عبدالمصطفی ازہری، علامہ عبدالستار خان نیازی، حضرت مولانا غلام علی اوکاڑوی صاحب رحمہم اللہ تعالیٰ رکن تھے قبلہ اوکاڑوی صاحب نے اپنے بے پناہ علم، دینی فراست، حاضر دماغی کا لوہا منوایا اور مسلمان کی متفقہ تعریف اسمبلی میں داخل ہوئی اور منظور ہوگئی

1974ء میں جب قادیانیوں کے خلاف تحریک چل۔رہی تھی اس وقت مرزا ناصر ملعون نے اسمبلی س اپنا موقف بیان کرنے کیلئے وقت لیا ---اس نے تقریر کی اُسکی تقریر پر ارکان اسمبلی نے موالات داخل کرنا تھے اُس وقت بھی "قبلہ اوکاڑوی صاحب علیہ الرحمہ "کی رہنمائی لی گئی اور سوال مراتب کرنے والی کمیٹی میں پھر آپکو رکن بنایا گیا اس جگہ بھی آپ نے اپنی علمی حیثیت کا سکہ منوایا اور یوں قادیانی کافر قراد دئیے گئے

👈سیاست میں حصہ

آپکی سُنی کانفرنس ٹوبہ، سنی کانفرنس نشتر پارک کراچی، سُنی کانفرنس ملتان شریف گراں قدر خدمات شامل ہیں
امام شاہ احمد نورانی آپکی علمی دینی و سیاسی صلاحتیوں سے خوب واقف تھے اِسی بنا پر آپکو جمیعت علماء پاکستان پنجاب کا صدر بنایا اور کئی سالوں تک آپ اسی عہدے پر قائم رہے امام شاہ احمد نورانی نے جن لوگوں کو جمیعت کا منشور بنانے کیلئے چنا تھا اُس میں دوسرے نمبر پر آپ ہی کا نام تھا اور یوں جمیعت علماء پاکستان کے منشور میں آپ کا فیض شامل ہے
ملک میں نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کا نعرہ لگاتے ہوئے پہلی بار لاہور اور اوکاڑہ سے جمیعت علماء پاکستان کے ٹکٹ پر قومی وصوبائی اسمبلی کیلئے الیکشن لڑا --------اور امام نورانی کے نعرے پر لبیک کہتے ہوئے 1977ءمارشل لا کے دور میں داتا دربار لاہور گرفتاری پیش کی ----------------

👈تصانیف

دیگر مصروفیات کے باعث آپ نے تصانیف کا اتنا ذخیرہ نہیں چھوڑا مگر جتنا ہے وہ بھی کمال ہے
ملک پاکستان میں سب سے پہلےآپ نے عربی میں اصول تفسیر پر کتاب "اشرف التحریر ما یتعلق با صول التفسیر لکھی جو عرب و عجم میں بہت مقبول ہوئی

اس کے علاوہ

مجزہ رد شمس

عقائد اسلام

، احکام خمر

، البرکات
، مسیح موعود اور مسیح کذاب

، حیات انبیاء و شہدا

، گستاخ رسول کا شرعی حکم

، التنویر

نبوت کی ذاتی اور عرضی
تقسیم باطل ہے

تلخیص المسائل

مسائل طلاق اور دیگر فتاوی جات کے کئی مسودات زیر طبع ہیں

👈مسلک اعلی حضرت پر مضبوطی

سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے آپ کو والہانہ لگاؤ تھا اپنے آپکو اعلی حضرت کے ایک ادنی غلام سے تعبیر فرماتے تھے ماضی قریب میں ایک" مفتی" نے اعلی حضرت کی تحقیق سے اختلاف کیا اور اور کچھ خلاف باتیں کیں تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس کا اپنے دارالعلوم میں "داخلہ"بند کردیا
1420ھ لاہور جامعہ نعیمیہ میں"سربراہ اجلاس "کے اندر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت اہلسنت سے منسلک تنظیموں کو پابند کیا جائے کہ وہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ
کے عقائد و نظریات سے مکمل ہم آہنگ ہوں "
آپ اپنے اکثر خطابات میں مسلک اعلی حضرت کا پرچار کرتے اور بدعقیدہ گستاخ لوگوں کا قرآن وسنت کی روشنی میں ایسا رد فرماتے کہ کسی کو دم مارنے کی گنجائش نہ ہوتی ------آپ نے بد عقیدہ لوگوں سے بہت سے کامیاب مناظرے بھی کیے ہیں ایک انٹرویو میں فرمایا
"میرا دور مناظرہ طالب علمی ہی سے شروع رہا، ابھی تک بے دینوں گستاخوں سے لڑرہا ہوں عقیدہ میں جھول کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا "(ندائے اہل سنت 1991ءدسمبر)

👈محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

آپکو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسقدر محبت تھی اور آپ اسقدر احادیث مبارکہ کا احترام و تعظیم کرتے تھے کہ جب آپ نے باقاعدہ دورہ حدیث کا آغاز شروع کروایا تو مدینتہ الرسول میں حاضر ہوکر منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز اشراق کے بعد اکثر بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں "موطا امام مالک"پیش فرماتے اور موطا شریف کا کافی حصہ حضور علیہ السلام کے سامنے پڑھا اور اس طریقے سے حضور علیہ السلام سے درسِ حدیث کی روحانی اور معنوی اجازت حاصل کی ---------
اسی جگہ منبر رسول کے پاس عالم بیداری میں آپکو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تو آپ نے حضور علیہ السلام سے عرض کی
"یارسول اللہ کیا ہم (اہلسنت) حق پر ہیں ؟
تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا "ہاں آپ حق پر ہیں "

👈تلامذہ

یوں تو آپکے سینکڑوں تلامذہ ہیں مگر یہاں صرف چند کے اسماء ملاحظہ فرمائیں

خطیب پاکستان مولانا شفیع اوکاڑوی علیہ الرحمہ

مولانا اشرف جلالی علیہ الرحمہ (گجرات)

ڈاکٹر مولانا کوکب نورانی صاحب

پیر سید محفوظ الحق شاہ صاحب آف بورے والا

پیر سید غضنفر علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ کرمانوالہ شریف

استاذ العلماء مفتی غلام یاسین اشرفی صاحب

مولانا غلام فرید ہزاروی صاحب

👈وصال و تدفین

11صفر المظفر 1421ھ بروز منگل بمطابق 16مئی 2000ء کو عالم ربانی قبلہ شیخ القرآن رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ  نے جناح ہسپتال لاہور میں صبح تقریباً 7:30  وصال فرمایا

جیسے ہی یہ خبر غم شہر اوکاڑہ میں پھیلی تو پورا شہر سوگوار ہوگیا ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی کئی تاجر حضرات نے اس غم میں دکانیں نہیں کھولیں جب آپکا جسد اطہر شہر میں داخل ہوا تو ہر آنکھ نم تھی غسل دینے سے پہلے تو آپکا چہرہ انور منور تھا ہی مگر بعدِ غسل جو بوقت تہجد دیا گیا اُس وقت ایک عجیب سی خوشبو آپکے جسم مبارک سے محسوس ہوتی اور آپکی چہرے کی چمک دمک ایسی خوبصورت تھی کہ بیان نہیں کی جاسکتی 24گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی چہرہ انور کی زیارت کرنے والوں کا دل کرتا تھا کہ بار بار زیارت کریں

آپکا جنازہ اشرف المدارس سے 17مئی بروز  بدھ صبح 8:30 اُٹھایا گیا اور شہر کے مختلف بازاروں اور سڑکوں سے ہوتا ہوا میونسپل اسٹیڈیم پہنچا جو پہلے سے ہی بھرا ہوا تھا
آپ کے جنازے میں ہزاروں افراد جمع تھے جس میں مُلک بھر سے کثیر تعداد میں علماء ومشائخ کے علاوہ تمام شعبہ ہائے زندگی کےلوگ سرکاری آفیسرز اور دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں نے بھی شرکت فرمائی

آپکا جنازہ تقریباََ سوا دس بجے آپکے پیرو مرشد کے صاحبزادے پیر سید مسعود احمد رضوی صاحب مدظلہ العالی نے پڑھایا
اور آپکی تدفین اشرف المدارس کے ساتھ ایک ڈھائی مرلے کے پلاٹ میں آپکی وصیت کے مطابق قصیدہ بردہ شریف و دیگر اذکار کی صداؤں میں کی گئی یہ پلاٹ آپ نے اپنی زندگی میں ہی اپنی قبر کیلئے خریدلیا تھا
آپ نے اپنے عقیدت مندوں کو وصیت کی تھی کہ میری قبر کی گہرائی 6فٹ رکھنا تاکہ جب حضور علیہ السلام میری قبر میں تشریف لائیں تو میں کھڑا ہوکر آپ کا استقبال کرسکوں نیز یہ بھی وصیت میں شامل تھا کہ میری قبر پر میری مدح میں غلو بھرے کلام نہ پڑھے جائیں جو بات مجھ میں نہیں وہ بیان نہ کی جائے کہ میں فرشتوں کے آگے شرمندگی محسوس کروں گا
آپ نے یہ اپنی زندگی میں ہی بخاری شریف کی صحیح احادیث کا ایک نسخہ تجرید بخاری لے کر رکھا ہوا تھا اور وصیت فرمائی تھی کہ یہ نسخہ میری قبر میں رکھ دینا آپکی وصیت کے مطابق یہ بھی کیا گیا

آپکا عرس مبارک کا ہر سال اشرف المدارس جی ٹی روڈ اوکاڑہ میں ماہ صفر کی 11،12کو  نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے جس میں ملک و بیرون ملک سے علماء و مشائخ تلامذہ، مریدین ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوتے ہیں

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ قبلہ شیخ القرآن علیہ الرحمہ کے درجات بلند فرمائے اور اِن کی صدقے میری بے حساب مغفرت فرمائے  آمین

یہ مضمون لکھنے میں جن کتب و رسائل سے استفادہ کیاگیا

"مقدمہ رسائل اشرفیہ جلد اول"

"بیاد مولانا غلام علی اوکاڑوی" از مولانا کوکب نورانی

"الشاہ امام احمد نورانی" از محمد صادق قصوری صاحب

"اللہ کا احسان بصورت شیخ القرآن تعارف "از قاری اکرم چشتی

Comments

Popular posts from this blog

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

گستاخ رسول کو کتے نے برداشت نہ کیا