الحاد کے بے لوث مبلغ ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی

الحاد کے بے لوث  مبلغ    ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
چوراہے پرکھڑا نوجوان  بلند آواز سے صدا لگا رہا تھا ۔۔۔۔
آئیے  ! ہم سب الحاد کی تبلیغ کرتے ہیں ۔۔۔۔لوگوں کو دین سے بد ظن کرتے ہیں ۔۔۔۔اسلام سے بے زار کرتے ہیں ۔۔۔۔
آؤ! اے لوگو! تم بھی آؤ !۔۔۔۔۔اے اندھے مریدو! تم بھی آگے بڑھو ۔۔۔۔۔اے عقل وشعور سے عاری عقیدت مندو! تم بھی کسی سے پیچھے مت رہنا ۔۔۔۔آؤ ! ہم سب دین ِ اسلام کو مل کر تباہ و برباد کر ڈالیں ۔۔۔۔۔
آؤ ! ہم سب مل کر دین محمد ی کو   اجاڑ ڈالیں ۔۔۔۔
آؤ ! مدد کریں ان تمام اسلام دشمنوں کی جو زیر زمین گلستانِ مصطفوی ﷺکو تباہ کرنے کی قسم کھا ر ہے ہیں ۔۔۔۔آؤ ! ہم آواز دیں اپنی  کمزور قوم کی زنگ آلود فکری   آبیاری کے لیے ان سفاک مفکروں کو جو ہمیں دینِ اسلام سے بے بہرہ کرکے  سیکولرازم کا سبق پڑھائیں ۔۔۔
چاروں طرف سے لوگ جمع ہونا شروع ہو چکے تھے  آوازیں بلند ہو رہی تھیں  اس بد بخت کو سنگسار  کر دو ۔۔۔۔لوگوں کے ہاتھوں میں پتھر موجود تھے ۔
اچانک اس نوجوان نے    گھٹنے زمین پر ٹیک دئیےاور اپنے دونوں ہاتھوں سے منہ کو ڈھانپ کر سسکنا شروع کر دیا ۔۔۔
ہجوم پریشان تھا ۔۔۔۔۔۔قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ  میں نے  باآواز بلند پو چھا :
اے نوجوان ! تو نے ابھی کیا کلمات خبیثہ ادا کیے ہیں ؟۔۔۔۔۔۔توبہ کر  ۔۔۔۔تجھے اندازہ ہے تو کیا جسارت کر بیٹھا ہے ؟
اس نے یک لخت دونوں ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹا دئیے ۔۔۔
آنسوؤں کے سبب اس کی آنکھیں سُرخ ہو چکی تھیں ۔۔۔۔۔سرخ آنکھوں کے ڈورے آنسو ہی نہیں نوجوان کی  نیم شبی کے گواہ بھی تھے ۔۔۔
اے شیخ ! کیا غلط کہہ دیا میں نے ؟ نوجوان کی آواز میں ایک کسک تھی ۔
کیا تجھے احساس نہیں تونے  اللہ کے دین سے بغاوت کی ہے ؟
باقی یہ سب کیا کررہے ہیں ؟ اس نے اسٹیج پر موجود علماء کی طرف اشارہ کرکے کہا ۔
آہ  !!!  شیخ !کلیجہ چھلنی ہو جاتا ہے جب   چھوٹے بد تمیز ،تمیز سکھانے پر  از خود مامور ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔اس موقع پر اقبال خوب یاد آتے ہیں کیا خوب کہتے ہیں ۔
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو
افسوس، اس نادان نوجوان پر ہر گز نہیں ۔۔۔۔افسوس تو اہل ِ علم کی خاموشی پر ہوا ۔۔۔۔
ارے خاموش کیوں ہو گئے ؟ شیخ لگائیے فتوے لگائیے ۔۔۔۔سنگسار کر دیجیے مجھے ۔۔۔۔یا پھر کسی جلاد سے کہہ کر سر قلم کر دیجیے ۔۔۔
یا پھانسی دے دیجیے ارے اس سب میں تو وقت لگے  گا مجھے واصل ِ جہنم کرنے میں کسی سے بندوق لیجیے اور گولی مار دیجیے تاکہ جلد از جلد جہنم رسید ہوں جاؤں ۔
عجیب و غریب قسم کا نوجوان تھا وہ ۔۔۔۔۔میں عجیب کشمکش میں تھا اس کو دھتکار دوں یا  سنبھالوں ؟اور پھر  میں نے اسے سینے سے لگا لیا
پر وہ سسک سسک کر رونے لگا ۔۔۔۔کچھ سنبھلنے کے بعد یوں گویا ہوا۔
شیخ ! اکبر کے الحاد اور دین الہی کے بارے میں کچھ پڑھا اور سُنا ہے ؟
ہاں ! پڑھا بھی ہے اور سُنا بھی ہے ۔۔۔۔۔کچھ بتائیے اس مجمع کو  اکبر کیوں دین ِ اسلام سے پھرا؟
وہ تو علماء کی قدر و منزلت کا قائل تھا بادشاہ ہوتے ہوئے بھی علماء کی جوتیاں سیدھی کرتا تھا  پھر کیا ہوا؟
اکبر توسلیم چشتی  رحمۃ اللہ علیہ کی محبت کا دم بھرتا تھا ۔۔۔۔جماعت سے نماز پڑھتا تھا ۔۔۔۔احکامِ شرع کو ادب  سے سُنتا تھا ۔۔۔۔مشائخ کا ادب بلکہ کمال ادب کیا کرتا تھا ۔۔۔۔
بتائیے شیخ بتائیے !  مجھے بھی اور ا س مجمع کو بھی
کیا اکبر مراقبے نہیں کرتا تھا ؟۔۔۔۔۔کیا اکبر وظائف کا ورد نہیں کرتا تھا ؟۔۔۔۔کیا راتوں کو اس کے ہاں  علماء کی محافل  نہیں ہوتی تھیں ؟۔۔۔۔کیا جہانگیر کی پیدائش پراکبر نے آگرہ سے اجمیر شریف      پیدل چل کر حاضری نہیں دی تھی ؟ ۔۔۔۔کیا اکبر اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضر نہیں ہوتا تھا؟۔۔۔۔
بتائیے نا شیخ بتائیے ! کیوں  اکبر الحاد کی تاریکیوں میں گم ہوا؟ ۔۔۔۔۔۔کیوں اس نے دین ِ الہی کی بنیاد ڈالی ؟۔۔۔۔
بتائیے نا! اس نے آفتاب کی پرستش کا حکم کیوں دیا ؟۔۔۔۔۔ بتائیے نا !اسلام کی ضد میں اس نے محل میں کتے اور سؤر  پالنا کیوں شروع کیے ؟۔۔۔۔بتائیے نا ! شراب کیوں حلال  قرار دی اس نے؟ ۔۔۔۔۔بتائیے نا وہ اسلام سے متنفر کس کی وجہ سے ہوا؟
بہت سارے اسباب ہیں اس کے میں نے نظریں جھکا کر کہا ۔
شیخ ! بس یہ بتا دیجیے ان بہت سارے اسباب میں  علماء تو اس کے الحاد کا سبب نہیں بنے نا!!!!!
اور میں اس سے آنکھیں چرا گیا ۔
کیا کہتا اس مجمع کے سامنے ہاں ! علماء کی بانجھ بحثوں نے  اکبر کو دینِ اسلام سے متنفر کیا ۔۔۔۔
کیا بتاتا ! یہ کہ ہاں ان  علماء کی باہمی چپقلش نے پہلے اکبر کو صلح کلی بنایا اور پھر  وہ الحاد کے راستے پر چل نکلا ۔۔۔۔۔
کیا ملا عبد القادر بدایونی کی اس عبارت کی تصدیق کرتا ۔
’’تیغ زبان کھینچ کر آپس میں مقابلے پر آجاتے ،ایک دوسرے کو کھلم کھلا کافر و گمراہ کہتے ‘‘
’’غصے سے علماء کی رگیں پھول جاتیں  اور پھر خوب ہی غل مچتا ‘‘
(منتخب التواریخ  جلد دوم ص ۴۶۵  از عبد القادر بدایونی بحوالہ سیرت مجدد الف ثانی  از ڈاکٹر مسعود احمد صفحہ ۹۴  )
شیخ ! یہ علماء کیا وہ کردار(کم وبیش) ادا نہیں کررہے جو عہد اکبر کے علماء کی ریت تھی ۔۔۔۔۔تو بتائیے نا میں نے کیا غلط کہا
میری آنکھوں میں آنسو تھے  اور لبوں پر التجاء تھی الہی !کیا کوئی مجدد الف ثانی ملے گا اس عہد میں ۔۔۔۔۔ کیا درد کا درماں نصیب ہو گا ؟؟
https://www.facebook.com/IslamicResearchSociety/ )
ڈاکٹر محمد اسمٰعیل بدایونی کی تحریر کردہ کتب مکتبۃ الغنی پبلشرز نزد فیضان مدینہ پرانی سبزی منڈی سے حاصل کریں 03152717547

Comments

Popular posts from this blog

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

گستاخ رسول کو کتے نے برداشت نہ کیا