وحشت کے نگینے ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی

وحشت کے نگینے     ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
عجیب عنوان ہے ۔۔۔۔میں لمحے بھر کے لیے ٹھہرگیا
چونک کیوں جاتے ہو۔۔۔۔۔۔معاشرے کی قبا پر جڑتے بھی تو خود ہو ان نگینوں کو۔  ایک اجنبی  آواز سماں خراش ہو ئی
معاشرے میں وحشت کے نگینے کون جڑتا ہے ؟  کیا کوئی صحت مند معاشرہ ایسا کر سکتا ہے ؟ میری آواز میں حیرت کا عنصر ابھی بھی موجود تھا ۔
تم ہی تو جڑتے ہو( پرائیویٹ اسکول کے) ماسٹر جی  !!!!  اس کی آواز میں طنز صاف نمایاں تھا ۔
اس کے طنز نے  میری کیفیتِ صبر کی پوشاک تار تار کر ڈالی ۔۔۔۔کیا مولوی تمہاری باتوں سے چھلنی ہو چکے جو آج تم نے  استاد کو اپنے جملوں کے نشانے  پر رکھ لیا ہے ۔
ہا۔۔ہاہا۔۔۔ہاہاہا۔۔۔وہ قہقہہ لگاکر ہنس پڑا۔
یہ آج تمہارے اسکول میں کون سا دن منایا جا رہا ہے ۔۔۔۔کمال سنجیدگی سے سوال تھا
ہیلوئین ڈے منایا جا رہا ہے ۔
کیا ہو تا ہے اس دن ؟
اس دن بس ہم کچھ مخصوص لباس پہنتے بچوں کوکچھ کریکٹرز سے روشناس کراتے ہیں بچے انجوائے کرتے ہیں اور بس ۔
ساری دنیا میں یہ دن منایا جا تا ہے ۔۔۔۔یہاں تک اس دفعہ تو وائیٹ ہاؤس میں بھی منایا گیا ۔۔۔وائیٹ ہاؤس  جانتے ہو وائیٹ ہاؤس ؟ میں نے بھی ٹکا کر طنز کیا ۔۔۔۔امریکی  صدارتی محل کو کہتے ہیں  ۔
کیا ہوا صدارتی محل میں ۔۔۔۔اس نے پوچھا
امریکی صدارتی محل کو  ایک خوفناک مقام میں تبدیل کر دیا گیا ۔۔۔۔ جا بجا مکڑی کے جالے  لٹککتے دکھائی دے رہے تھے ۔۔۔۔ ایک  شخص جو ڈائنا سور کے روپ میں آیا تھا امریکی  خاتونِ اول کو ڈارانے میں کامیاب بھی ہو گیا ۔۔۔۔۔یہ ہیں  دنیا کے با شعور لوگ ۔
یقینا ً آپ کی اب تو تسلی ہو گئی ہو گی ۔میں نے بغیر کسی تمیز و رعائیت کے کہا
کیا اب بھی تمہیں سمجھ نہیں آتا ۔۔۔اس نے بہت پیار سے سمجھایا
دنیا سمٹ رہی  ہےایک کلچر  کی کوششیں جاری ہیں کیا ضروری ہے  ہر چیز میں اسلام کا  پیوند لگانے کی ۔۔۔۔دقیانوسی !!!میں نے نفرت سے کہا
تم وحشت کے  نگینہ ساز ہو ۔۔۔تم صالح اقدار کے قاتل ہو ۔۔۔۔تمہیں شاید احساس بھی نہیں کہ تم لشکرِ ابلیس کے  خاموش سہولت کار ہو ۔۔
وہ  چیختے چیختے سسک پڑا ۔ تمہیں شاید معلوم  بھی نہیں تم کر کیا رہے ہو ؟تم روشن خیالی کا پر فریب نعرہ لگاتے ہوئے  وحشت کے نگینے  جڑ رہے ہو معاشرے کی پوشاک میں دوسرے لفظوں میں تم ان دیکھے کانٹے بو رہے ہو  اور تمہیں یہ خبر بھی نہیں کہ تم  زیر زمین کسی سفاک ، وحشت ناک  ان دیکھے عالمی اداروں کے  سلیپر سیل کا حصہ بن  چکے ہو ۔۔۔تمہیں شاید احسا س بھی نہیں ۔۔۔۔تم دجال کے لیے کام کررہے ہو ۔
لیکن کیسے ؟ میری رگوں میں دوڑتا  خون ِ مسلم جوش  مارنے لگا ۔
تمہیں یاد ہے آج سے چند سال قبل ہم نے ویلنٹائن ڈے کا نام بھی نہیں سُنا تھا ۔۔۔۔۔پھر اخبار کے ذریعے پہلی بارہم نے یہ لفظ سُنا ابتداء میں جنگ اخبار نے مفت آپ کے پیغام چھاپے  ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے کہ آپ وش کیجیے اپنےباپ کو ، اپنے بھائی کو ، بہن کو اور ماں کو ۔۔۔۔۔ اسی زمانے میں ہم  اپنے بھولے بھالے بچوں کو اسکول میں یہ ڈے منانا سکھا رہے تھے ۔۔۔۔ہم بتا رہے تھے پنک یا لال ڈریس پہن کر آؤ ۔۔۔۔ہم بتا رہے تھے کہ والدین کو سرخ گلاب دینا۔ہمیں ویلنٹائن ڈے  ہماری اپنی اقدار میں لپیٹ کر پیش کیا گیا ۔۔۔ہم سمجھ ہی نہیں سکے خوشی خوشی منانے لگے ۔۔۔۔۔پھر میڈیا پر مارننگ شو ہونے لگے۔۔۔۔محبت کا عالمی دن ،عشق کا بین الاقوامی ڈے ۔۔۔۔ سارا سار  ا دن میڈیا ویلنٹائین ڈے ویلنٹائن ڈے  کی گردان کرنے لگا۔۔۔۔۔
ویلنٹائن ڈے کا رئیپر پھٹ گیا معلوم ہے پھر کیا ہوا؟
پھر معاشرے   میں ناسور  پلنے لگا ۔۔۔۔ہوٹلز کے کمرے اور آئس پارلرز آباد ہو نے لگے ۔۔۔۔انسانی فطرت جسے دین   نے شریعت اور اخلاق کی زنجیروں  سے باندھ رکھا تھا یا محبت ِ الہی  اور اتباع رسول ﷺ کے تابع کیا ہوا تھا   آزاد ہونے لگی لبرل ازم کا  ننگا و آزادانقلاب  وحشت اختیار کرنے لگا ۔۔۔۔۔کمزور لمحات کی وڈیوز ڈالرز میں بکنے لگیں ۔۔۔۔ سوشیل میڈیا پر وائرل ہونے لگیں ۔
ہماری بچیاں خود کشی کرنے لگیں ۔۔۔۔ہمارے بچے قحبہ خانوں کو آباد کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تم ہیلوئین ڈے مناؤ  ۔۔۔۔روشن خیالی   کی آڑ لیتے ہوئے ۔۔۔۔۔پھر اس سےجو وحشت کا  عفریت پھوٹے گا  ۔۔۔ ہیلوئین کے نئے عقوبت خانے سے تمہارے بچوں کی   چیخوں  سننے کے لیے تم  زندہ نہیں ہو گے ۔۔۔۔اب سوچ لو وحشت کے ان نگینوں کو تم معاشرے میں جڑنا چاہتے ہو ؟
ویلنٹائن ڈے کی طرح تمہیں خود بھی ابھی نہیں معلوم یہ ہیلوئین  ڈے  ہے کیا ؟
عائشہ غازی لکھتی ہیں ۔
ﺧﺪﺍﺅﮞ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻗﺪﯾﻢ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺗﮩﻮﺍﺭ ﮨﮯ ﺟﻦ ﮐﺎ ﻣﺎﻧﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮨﯿﻠﻮﺋﯿﻦ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ ﻣﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﻮﺕ ﺍﻭﺭ ﭼﮍﯾﻠﯿﮟ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻥ ﺟﯿﺴﺎ ﺭﻭﭖ ﺩﮬﺎﺭ ﮐﺮ، ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﮐﮭﺎﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﮩﻦ ﮐﺮ ﺍٓﮒ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﻧﺎﭼﻨﮯ ﺗﮭﮯ، ﺍﺱ ﺁﮒ ﭘﺮ ﻗﺮﺑﺎﻧﯿﺎﮞ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﺍٓﮒ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺟﻼﺗﮯ ﺗﮭﮯ، ﯾﮧ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺍٓﮒ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﻥ ﻣﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺪﺭﻭﺣﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺑﺪﺭﻭﺣﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﻨﮓ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﺟﺐ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﺖ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻗﺒﺎﺋﻞ ﺗﮏ ﭘﮭﯿﻠﯽ ﺗﻮ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﺖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣُﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺩﻥ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺩﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻼ ﻟﯿﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﺍﻥ ﻏﯿﺮ ﻋﯿﺴﺎﺋﯽ ﻗﺒﯿﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﻤﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﻮ۔ ﻏﺮﯾﺐ ﻋﯿﺴﺎﺋﯽ ﺍﻣﯿﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭ ﮐﮭﭩﮑﮭﭩﺎﺗﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮟ ﮔﮯﺍﻭﺭ ﻏﺮﺑﺎﺀ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣُﺮﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﺐ ﺳﮯ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﭘﺮﺳﺖ ﻋﯿﺴﺎﺋﯽ ﺍﺱ ﺗﮩﻮﺍﺭ ﮐﻮ ﻧﺎﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺩﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺳﺎﺭﯼ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺩﻥ ﮐﯽ ﻣﻨﺎﺳﺒﺖ ﺳﮯ ﮈﺭﺍﻭﻧﮯ ﻟﺒﺎﺱ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮧ ﮐﻤﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ۔
1966 ﻣﯿﮟ ﺷﯿﻄﺎﻧﯿﺖ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﯾﮏ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﺮﭺ ﺍٓﻑ ﺳﯿﭩﻦ ‏( ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﺎ ﮔﺮﺟﺎ ‏) ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﺗﻨﻈﯿﻢ ﻣﻨﻈﺮ ﻋﺎﻡ ﭘﺮ ﺍٓﺋﯽ۔ ﻣﺬﮨﺐ ﺷﯿﻄﺎﻧﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﻦ ﺍﮨﻢ ﺗﮩﻮﺍﺭ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﮐﻢ ﺍﮨﻢ۔ ﺍﻥ ﺗﯿﻦ ﺍﮨﻢ ﺗﮩﻮﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻼ ﮨﺮ ﺷﯿﻄﺎﻥ ‏( ﺍﺱ ﺗﻨﻈﯿﻢ ﮐﮯ ﺭﮐﻦ ‏) ﮐﯽ ﺳﺎﻟﮕﺮﮦ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﯾﮧ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺧﺪﺍ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺩﻥ ﺷﯿﻄﺎﻥ ‏( ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﭖ ‏) ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍٓﯾﺎ۔ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺍﮨﻢ ﺗﺮﯾﻦ ﺗﮩﻮﺍﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﯾﮩﯽ ﮨﯿﻠﯿﻮﺋﯿﻦ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺎﻧﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺩﻥ ﯾﮧ ﺗﮩﻮﺍﺭ ﻣﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻥ ﺷﯿﻄﺎﻧﻮﮞ ﺟﯿﺴﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﻥ ﺷﯿﻄﺎﻧﯽ ﺟﺒﻠﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﮔﮭﻨﮕﮭﺎﻟﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﯾﮧ ﻋﺎﻡ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ۔ ﻣﺬﮨﺐ ﺷﯿﻄﺎﻧﯿﺖ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﺎﺭﺍ ﺳﺎﻝ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﺍﻥ ﭘﺮ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﮨﯿﻠﻮﺋﯿﻦ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺍﻥ ﭘﺮ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍٓﺝ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﻮ۔ ﯾﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺍﻓﺴﺎﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺬﮨﺐ ﺷﯿﻄﺎﻧﯿﺖ ﮐﯽ ﺍٓﻓﯿﺸﻞ ﻭﯾﺐ ﺳﺎﺋﯿﭧ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﺣﻘﺎﺋﻖ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ۔
https://daleel.pk/2017/10/31
تم اگر اسکول کےآنر ہو تو تم ہی میرے مخاطب ہو ۔۔۔۔۔تم اپنےاسکول کو ان خرافات سے محفوظ رکھنا۔۔۔۔ اپنی نسلوں کو ان عقوبت خانوں سے بچائے رکھنا تمہاری ذمہ داری ہے ۔۔۔۔۔والدین کو چاہیے وہ سختی سے منع کریں اور حوصلہ شکنی کریں ایسے پروگرامز کی  آخر  اس میں ایسی کو ن سی خاصیت ہے کہ بچے کی تعلیم  وتربیت اور سائنسی ترقی میں کمی رہ جائے گی ۔۔۔۔۔
وحشت کے نگینے مت جڑو معاشرے کی قبا میں ۔۔۔۔۔بظاہر چمکتے یہ نگینے اپنے اندر زمانے بھر کی سفاکیت اور وحشت رکھتے ہیں ۔
https://www.facebook.com/IslamicResearchSociety/ )
ڈاکٹر محمد اسمٰعیل بدایونی کی تحریر کردہ کتب ،مکتبہ انوارا لقرآن ، مصلح الدین گارڈن  ،03132001740 مکتبہ برکات المدینہ بہادرآباد اور مکتبۃ الغنی پبلشرز ن زد فیضان مدینہ پرانی سبزی منڈی سے حاصل کریں ۔03152717547

Comments

Popular posts from this blog

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

گستاخ رسول کو کتے نے برداشت نہ کیا