استاد یا بھیڑئیے ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی

استاد یا بھیڑئیے      ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
چٹا خ۔۔۔۔چٹاخ ۔۔۔۔تھپڑ کی آواز بہت دور تک گئی تھی ۔۔۔۔چاروں جانب ایک تماشا لگا ہوا تھا ۔
چوراہے پر ایک  دانش ور  نے رک کر پوچھا: یہ آج اس  چوراہے پر  کیا کوئی نیا منظر ہے ؟
جو پکڑا گیا وہ چور ۔۔۔۔۔۔۔میں نے صاف گوئی سے کہا
کیا مطلب ؟
چوراہے پر لگا یہ  تما شا   کوئی نیا نہیں ہے ۔۔۔۔یہ تماشے ہر یونیورسٹی میں لگتے رہے ہیں ۔۔۔۔۔ آپ کے لیے یہ انکشاف شاید نیا ہو ۔
کلیہ معارفِ اسلامیہ کے سابق ڈین پر یہ الزام بھی  لگتا رہا ہے کہ وہ اپنے نا جائز مقاصد کے حصول کے لیے طالبات کو فائیو اسٹار ہوٹل بھی بھیجتے رہے ہیں اس ناجائز خواہش کے ساتھ ’’ ان کے مہمان کو خوش کر دیا جائے تو ان کو اچھے نمبروں سے پاس کر دیا جائے گا ‘‘۔۔۔۔بلیک میلنگ کا یہ سلسلہ کہاں تک چلتا رہا ہے جامعات کے اساتذہ اچھے طریقے سے جانتے ہیں ۔۔۔۔۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کی طالبات کا بھی کبھی درد سنیے ۔۔۔۔۔بزنس انسٹیٹیوٹ میں تو یہ عام سی بات ہے جناب !!! مانا کہ سب نہیں  کرتے ۔۔۔۔چند گندی مچھلیاں ہی تالاب کو گندا کرتی ہیں ۔۔۔۔۔
تکلیف دہ بات  یہ ہے  باقی اساتذہ خاموش کیوں رہے ؟کیوں کہ مجرم ان کی برادری کا تھا ؟۔۔۔۔یونیورسٹی کی بدنامی ہوتی ؟ ۔۔۔۔
کیا اب بد نامی نہیں ہوئی پہلے فقط ایک شخص مجرم تھا اب آپ نے تمام اساتذہ کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ۔۔۔۔
کیا آپ کو نہیں لگا کہ وہ سامنے موجود کوئی اور نہیں آپ کی ہی بچی ہے ؟
استاد تو وہ تھا ہی  نہیں وہ تو ایک بھیڑیا تھا  جنسی بھیڑیا ۔۔۔۔۔۔
موم بتی والی آنٹیاں جو ایک جھوٹے  فلمی وڈیو کے کلپ پر تو  روڈوں پر آجاتی ہیں اب خاموش کیوں ہیں ؟
دانش ور نے میری بات غور سے سُنی اورکہا : ان لبرل آنٹیوں کو تو چھوڑو یہ تو چاہتی یہ ہی ہیں اور وہ ہی ہو رہا ہے ۔
آپ کی اس  مذمت کے بعد میرا  سوال یہ کہ استاد بھیڑیا کیوں بنا؟ ۔۔۔یہ تو ہر جامعہ کا  مسئلہ ہے ۔۔۔۔جنسی ہراسمنٹ کا یہ سلسلہ تو اب  کالجز تک جا پہنچا ہے ۔
جناب والا ! چوراہے پر تماشے مت لگائیے ۔۔۔۔پیٹرول اور آگ کا ملاپ کیا ؟
جب کالج بالخصوص جامعات   میں موجود  طالبات  ،طالبہ کم اور ماڈل زیادہ لگیں تو سامنے موجود صنفِ مخالف  کب تک اپنے نفس پر بند باندھ سکے گا ؟
جب کالجز اور جامعات میں کلچر ڈے کے نام پر ناچ گانے کے پروگرام منعقد کیے جائیں گے ،پکنک اور ٹورز  پر جب بے تکلفی عام ہو جائے گی تو   یہ ہی نتائج نکلیں گے  ۔۔۔۔۔(جبری یا با رضامندی )
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے سوال پوچھا کیا ایک مرد ایک عورت کو پڑھا سکتا ہے ؟ فرمایا اگر پڑھانے والا بایزید بسطامی ہو اور پڑھنے والی رابعہ بصری ہو اور جس جگہ پڑھا جاۓ وہ خانہ کعبہ ہو اور جو پڑھا جاۓ وہ کلام اللہ کا (قرآن پاک ) ہو تب بھی یہ جائز نہیں۔
لیکن میری یہ آواز مُلَّا کی آواز کہہ کر دبا دی جائے گی ۔۔۔۔دقیانوسیت کی پھبتی کسی جائے گی ۔۔۔۔
دبا د یجیے میری آواز کو  ۔۔۔۔ سی دیجیے میرے لبوں کو ۔۔۔۔۔
لیکن ایک تجویز جو کسی حد تک اس آگ کو بھڑکنے سے روک سکے گی ۔۔۔۔۔
اگر آپ کسی جامعہ کے وائس چانسلر ہیں!!!!!!!!!!
اگر آپ گرلز کالج کی پرنسپل ہیں!!!!!
تو آپ ایک کام تو کر ہی سکتے ہیں  آپ اساتذہ پر بھی اور طالبات پر بھی ایک احسان کیجیے  ۔
• اساتذہ اور طالبات دونوں کے لیے گاؤن لازمی کر دیجیے ۔ طلبہ و طالبات کا گاؤن کے بغیر کالج اور جامعہ میں داخلہ بند ہواور اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔
• کلاس میں طلبہ و طالبات کے درمیان ایک پارٹیشن لازمی ہو جیسے  ماضی میں پنجاب یونیورسٹی میں ہوتا تھا۔
• اس بے حیائی و عریانیت کے دور میں جسے بد قسمتی سے لبرل ازم کا دور کہا جا تا ہے  اساتذہ اور طلبہ و طالبات کی کاؤنسلنگ  بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
• اسٹوڈینٹ ایڈ وائیزر    کے آفس کو فعال کیجیے اور اگر  مشیر امورِ طلبہ یہ کام نہ کر سکیں تو براہ کرم کسی اور کے لیے یہ سیٹ خالی کر دیں
• جامعات ڈیٹنگ پوائینٹ بن چکے  ہیں جامعہ کراچی کے وی سی نے ایک اچھا کام یہ کیا کہ انہوں نے اس معاملے میں سختی کی اور کافی حد تک اس پر قابو پا لیا گیا۔
• کلچر ڈے یا  ہفتہ طلبہ جس میں ناچ گانے کے بیہودہ پروگرام منعقد ہوں  پر سخت پاپندی عائد کی جائے  ۔
• اگر کسی کی اس جنسی ہراسمنٹ کے حوالے سے  شکایت آئی ہے تو بلا تا خیر انکوئری کمیٹی بنائی  جائے اور جرم ثابت ہو جائےتو سخت کڑی سزا دی جائے  ۔  اگر سزا نہیں دی گئی تو یاد رکھیے گا یہ جرم نہیں رکے گا ۔
• کالج کی پرنسپل ، جامعات میں شعبوں کی انچارج او ر ڈین ،اپنی  اپنی ذمہ داری پوری کریں  اور حالات ، معاملات اور واقعات پر گہری نگاہ رکھیں ۔
میرے دوستو! اگر تم نے ایسا نہیں کیا  تو    معلوم ہے انجام کیا ہو گا ؟  یہ لبرل ازم اور سیکولر ازم   کا عفریت تمہیں ، تمہاری اقدار اور تمہاری پاکیزگی کو نگل جائے گا ۔یہ کہتے کہتے دانش ور  کی آنکھیں نمناک ہو گئیں ۔
اقبال نے برسوں پہلے کہا تھا ۔
دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پر آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا
آپ سے درخواست ہے اس پوسٹ کو اس قدر شئیر کیجیے کہ یہ تمام  کالجز کی پرنسپلز ، جامعات کے وی سی ، ایچ ای سی اور وزیر تعلیم  تک پہنچ جائے ۔۔۔۔۔کیا معلوم کسی کے دل میں اسلام اور پاکستانیت کا جذبہ ابھی زندہ ہواور وہ ان تجا ویز پر عمل کر کے آئندہ کسی  اورکی یا آپ ہی کی بیٹی یا بہن  کو بچا لے ۔
https://www.facebook.com/IslamicResearchSociety/ )
ڈاکٹر محمد اسمٰعیل بدایونی کی تحریر کردہ کتب ،مکتبہ انوارا لقرآن ، مصلح الدین گارڈن  ،03132001740 مکتبہ برکات المدینہ بہادرآباد اور مکتبۃ الغنی پبلشرز ن زد فیضان مدینہ پرانی سبزی منڈی سے حاصل کریں ۔03152717547

Comments

Popular posts from this blog

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

گستاخ رسول کو کتے نے برداشت نہ کیا