کامیاب تجارت ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی

کامیاب تجارت    ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
ماضی کے سارے اورا ق ہی تو الٹنے لگے تھے لمحے بھر میں  ،کس طر ح رومی فوج نے گاؤں پر حملہ کرکے  کمسن بچے کو غلام بنا لیا تھا ۔۔۔۔پھر بازار میں فروخت کر دیا گیا ۔۔۔۔۔پھر شب و روز گزرتے رہے کسی ہمدرد نے قیمت ادا کرکے آزاد کر ادیا ۔۔۔
کاروبار  شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نےاس میں بڑی برکت عطا فرمائی ۔۔۔۔۔چند ماہ میں ہی شہر کے رؤساء میں اس کا شمار ہونے لگا تھا ۔
محبت بھی کیا عجیب جذبہ ہے نیند کو اڑا دیتا ہے ۔۔۔۔۔کبھی ہنساتا ہے ۔۔۔ کبھی رلا تا ہے ۔۔۔ کبھی گلی گلی  پھراتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
وہ بھی تڑپ رہا تھا بہت شدت سے محبوب کی یاد اسے ستا رہی  تھی ۔۔۔۔ کسی پہلو آرام نہیں آتا تھا ۔
بس پھر اس نے فیصلہ کرلیا تمام سامان جمع کیا اور  محبوب کی بستی کی جانب رخ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
شہر کے اوباشوں کو خبر مل گئی   وہ جا رہا ہے اپنے محبوب کے شہر  ۔۔۔۔۔
پھر کیا تھا انہوں نے گھیراؤ کر لیا اور کہا :
’’ اے صہیب جب تم یہاں آئے تھے  مفلس و قلاش تھے ایک حقیر انسان تھے یہاں رہ کر تم نے بہت دولت کمائی اور معاشرہ میں  بلند مقام حاصل کیا ہے اب تم یہاں سے نکلنا چاہتے ہو اور اپنا مال و متاع بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہو بخدا ! ہرگز ایسانہیں ہو گا‘‘
عاشقِ صادق نے    آبروئے عشق کودوام دیتے  ہوئے کہا :
اگر میں تمہیں اپنا سارا مال  ومتاع دے دوں تو کیا پھر مجھے جانے دو گے ؟
انہوں نے کہا : ہاں ہم تمہیں جانے دیں گے ۔
انہوں نے کہا :یہ سال مال و متاع تمہیں مبارک  مجھے منزلِ جاناں کی طرف  جانے سے مت روکو ۔
پھر جب محبو ب ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے   اپنے جا نثار صہیب کے بے مثال ایثار کی خبر ملی تو ذرہ پرور آقا ﷺ نے یہ فرما کر  اپنے غلام کی حوصلہ افزائی کی ۔
’’بڑا نفع کمایا صہیب نے بڑا نفع کمایا صہیب نے ‘‘۱
یہ واقعہ اپنے دامن میں ایک بہت  بڑا پیغام رکھتا ہے
حضرت صہیب کے پاس دو آپشن تھے۔
i. مال صہیب رومی کا تھا حق اور انصاف کا تقاضا تھا کہ وہ  اس کے لیے لڑتے
ii. دوسرا یہ کہ وہ مال دے کر جس پر انہی کا  حق تھا   اسلام کی دعوتی مہم میں شریک ہو نے کے لیے قربان کر دیتے
صہیب رومی نے وہی فیصلہ کیا جو ایک با مقصد اور با کردار آدمی ایسے موقع پر کرتا ہے
آپ نے مال کی قربانی دے دی لیکن مقصد کو بچا لیا
ہم میں سے اکثر افراد مال ،منصب کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہم سے جب کوئی بات کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں یہ میرا حق ہے شرعی طور پر آپ مجھے اس حق سے محروم نہیں کر سکتے اور سامنے والا شخص اپنے درد کو سینے میں چھپائے ہماری انا کے ہاتھوں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔
ایک مرتبہ سوچئیے آپ کو مقصد عزیز ہے یا حق ؟
شاید آپ اپنا حق وصول کر لیں لیکن مقصد سے دور ہو جائیں تو یقینا آپ نے  نفع کا سودا نہیں کیا
نفع تو یہ ہی ہے کل بروز حشر اللہ کے نبی ﷺ فرمائیں میرے غلام تو نے اپنا حق میرے ناموس کے لیے چھوڑ دیا تھا ۔۔۔تونے عقیدہ ختم نبوت کے لیے اپنا عہدہ اپنا منصب قربان کر دیا تھا ۔۔۔۔۔تونے بڑے نفع کی تجارت   کی ،تونے بڑے نفع کی تجارت کی ۔۔۔۔۔۔۔منصب اور عہدوں  کا  حق گرچہ آپ ہی کا ہو مگر بڑے مقصد کے لیے اسے قربان کر دینا خسارے کا سودا نہیں ۔
۱۔ضیاء النبی  از پیر محمد کرم شاہ الازہری جلد سوم صفحہ ۳۸
https://www.facebook.com/IslamicResearchSociety/ )
ڈاکٹر محمد اسمٰعیل بدایونی کی تحریر کردہ کتب ،مکتبہ انوارا لقرآن ، مصلح الدین گارڈن  ،03132001740 مکتبہ برکات المدینہ بہادرآباد اور مکتبۃ الغنی پبلشرز ن زد فیضان مدینہ پرانی سبزی منڈی سے حاصل کریں ۔03152717547

Comments

Popular posts from this blog

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

گستاخ رسول کو کتے نے برداشت نہ کیا