دینی مدراس :محمد فھد حارث

دینی مدارس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لبرل طبقے تو شروع سے ہی دینی مدارس کے خلاف رہے ہیں لیکن آج کل  ایک عام وبا یہ بھی چلی ہوئی ہے کہ دینی مدارس کے خلاف اتنی شدومد سے پروپیگنڈہ ہورہا ہے کہ اب  ہمارے بعض اسلام پسند طبقات بھی دینی مدارس کے قیام پر تنقید کرنے لگے ہیں جس میں  دنیاوی پڑھا لکھا  اسلام پسند طبقہ بھی شامل ہے۔ دینی مدارس سے متعلق بعض تحفظات ہمیں بھی ہیں لیکن اسکا یہ مطلب  نہیں کہ ان تحفظات کے سد باب کے لئے مدارس کے قیام کو ہی غیر ضروری یا نقصان دہ باور کرلیا جائے۔ مدارس سے متعلق تحفظات صرف اس بات کے متقاضی ہیں کہ  مدارس سے متعلق بعض اصلاحات درکار ہیں جو کہ ایک پہلے سے موجود سسٹم کو خوب سے  خوب تر بنانے اور وقت کے ساتھ ہم آ ہنگ کرنے کی  سعی میں شمار ہونگی۔ ہم مانتے ہیں کہ مدارس کے نصاب میں تبدیلی اور جدت کی ضرورت ہے لیکن یہ تبدیلی اور جدت کہاں مطلوب نہیں۔ یہی کچھ حال ہماری  انجینئرنگ اور طبی جامعات کا بھی ہے۔ ان کے نصاب بھی دوسرے ممالک  کی جامعات کی بہ نسبت    قدیم ہیں  اور  جدت کے متقاضی ہیں۔ تو کیا کبھی کسی نے ان  سائنسی جامعات کے قیام پر کوئی اعتراض کیا یا پھر تجاویز دیں کہ یہ جامعات فوراً بند کردی جائیں کہ  یہ جامعات   قدیم و متروک نصاب کے تحت  ایسے ناقص انجینئر  پیدا کررہی ہیں  جن کی بنائی گئی عمارات و مشینری انسانی جانوں کے لئے خطرے کا باعث ہوسکتی ہیں۔بلکہ اس بابت یہ اصلاحات دی جاتی ہیں کہ ان جامعات کے نصاب کو موجود ہ زمانے اور ترقی یافتہ ممالک کی جامعات کے نصاب سے ہم  آہنگ کیا جائے۔ سو ایسا ہی کچھ معاملہ  ہمارے دینی مدارس کے ساتھ ہے کہ ان کے نصاب کو موجودہ زمانے سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے اور ماشاءاللہ سے کئی  دینی  جامعات میں  یہ کام عرصہ دراز سے ہو بھی رہا ہے۔

اور پھر یہ بھی عجیب بات ہے کہ دینی مدارس کے نظام کو لبرل طبقہ ایسے پیش کرتا ہے کہ عام آدمی کے دماغ میں  مدارس کے نام پر ایک ٹوٹی پھوٹی عمارت  کا تصور ابھر آتا ہے جس میں بچے کچی زمین پر بیٹھے ایک ’’جاہل‘‘ مولوی سے ہل ہل کر قرآن کا رٹا لگا رہے ہوتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش، مصر، انڈونیشیا ، ہندوستان  وغیرہ میں پرائیوٹ سطح پر بغیر کسی حکومتی سرپرستی کے یہ مدارس نہ صرف عظیم الشان عمارات کی شکل میں کھڑے ہیں بلکہ کئی جدید سہولتوں سے بھی آراستہ ہیں جہاں کے بیشتر مہتمم دنیا کی بہترین  جامعات کے فارغ التحصیل ہیں۔ اگر اس بابت کسی کو شک ہوتو ذرا کراچی میں جامعہ رشیدیہ، دارلعلوم دیوبند کورنگی، جامعہ ابن تیمیہ  یونیورسٹی روڈ   وغیرہ جبکہ لاہور  میں جامعہ رحمانیہ وغیرہ کا دورہ کر  آئے۔ یہ تمام جامعات کسی طور بھی  کسی سرکاری ٹیکنیکل یونیورسٹی سے کم نہیں۔بس فرق اتنا ہے کہ سرکاری  سائنسی  و ٹیکنیکل یونیورسٹیوں کو حکومت کی طرف سے اپنے اخراجات اور اساتذہ کی فیس کے لئے گرانٹ ملتی ہے جبکہ یہ مدارس اہل خیر کے تعاون سے  حکومت کی طرف سے بغیر کسی مالی سرپرستی کے چل رہے ہیں۔

یہ بات یاد رکھئے کہ لبرلز کو تو مدارس کا قیام اپنے  ’’لبرل مذہب‘‘ کی محبت میں کٹھکتا ہے  کہ وہ اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں  لیکن مدارس کے قیام پر اسلام پسند طبقہ کے ناروا تحفظات لبرلز طاقتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہیں۔ یہ جان لیجئے کہ اگر آج پاکستان میں اسلام پسند طبقہ زندہ ہے، سانسیں لے رہا ہے اور کسی طور نمو پا رہا ہے تو قطع نظر مسالک کے اختلاف کے یہ آپ کے  دینی مدارس کا ہی مرہون منت ہے۔ پاکستان میں اسلام پسند طبقہ کا سب سے بنیادی ماخذ یہ مدارس ہی ہیں۔ جس روز آپ کے ملک سے ان مدارس کا قیام ختم ہوگیا، اس دن آپ کے ملک کو سیکولر بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ یہ دینی مدارس ہی ہیں جنھوں نے سیکولر اور اسلام پسند طبقہ کے بیچ میں توازن رکھا ہوا ہے ورنہ آپ کا اونچے عہدوں پر فائز سیکولر   طبقہ کب کا اس ملک کو  لادین مملکت میں تبدیل کرچکا ہوتا۔

تحریر: محمد فھد حارث

Comments

Popular posts from this blog

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

گستاخ رسول کو کتے نے برداشت نہ کیا