بریلوی اصطلاح از سراج الدین امجد

پاکستان کے تمام مشائخ 1970 / 1969  کی دہائی تک بریلوی کی نہ صرف اصطلاح سے کلیتاً اجتناب کرتے رہے بلکہ مشائخ کا تعلق بھی فاضل بریلوی سے نہ تھا ۔ پیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری،  پیر مہر علی شاہ،  میاں شیر محمد شرقپوری،  خواجہ محمود تونسوی ، خواجہ محبوب عالم سیدوی کسی کی بھی فاضل بریلوی سے ملاقات ثابت نہیں ۔ حضرت شرقپوری جیسے ولی کامل اور کشف عیانی والے بزرگوں کو تو دیوبند میں چار نوری وجود نظر آتے ۔ یہ تو منظر اسلام۔بریلی کے طلبہ جب پاکستان آئے بالخصوص مولانا سردار احمد فیصل آبادی تو کٹر بریلویت شروع ہوئی ۔ انہوں نے رضوی فکر کو فروغ دیا اور پھر ۔مولانا جلال الدین شاہ بھکھی جن سے جلالی نسبت والے علماء پیدا ہوئے یہ لوگ شدید متعصب بریلوی ہیں اور تکفیر سے باز نہیں آتے ۔ ہمارا اس بریلویت سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہم تو فاضل بریلوی کو بھی ایک بڑا سنی عالم اور فقیہ سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ نہ مجدد نہ امام۔۔ بلکہ خاکسار تو بہت سے مسائل میں پیر مہر علی شاہ گولڑوی،  خواجہ حسن جان سرہندی اور شیخ الاسلام انواراللہ فاروقی کو فاضل بریلوی پر فوقیت دیتا ہے ۔۔۔
پھر فاضل بریلوی خیر آبادی تلمذ نہیں رکھتے ۔۔ اوپر یہ بے جا دعویٰ کیا گیا ہے ۔ ان کے معاصرین میں علامہ معین الدین اجمیری،  علامہ برکات احمد ٹونکی،  مفتی لطف اللہ علی گڑھی،  علامہ فضل حق رامپوری خیر آبادی علوم کے وارث تھے ۔
اور یہی سنیوں کے اصل لوگ تھے ۔ ان کے نام رضوی،  جلالی ٹائپ بریلوی اس لیے نہیں لیتے کہ یہ لوگ حسامی نہیں

Comments

Popular posts from this blog

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

گستاخ رسول کو کتے نے برداشت نہ کیا