اقبال کے والد شیخ نور محمد کی شخصیت اور اقبال کی تربیت کا احسن انداز. :میاں شاہد شفیق

اقبال کے والد  شیخ نور محمد کی شخصیت اور اقبال کی تربیت کا احسن انداز

اقبال کے والد شیخ نور محمد وجیہ صورت کے مالک تھے غالبا جوانی سے ہی چہرے پہ سنت رسول سجائے ہوئے تھے ،  صاف ستھرا لباس پہنتے تھے ، انہوں نے کسی مکتب سے تعلیم حاصل نہ کی مگر اردو و فارسی کی کتب پڑھ لیا کرتے تھے  ، عالی ظرف اور بردبار تھے ۔ پیشہ کے اعتبار سے تاجر تھے مگر صوفیہ اور علماء کی مجالس میں شریک رہتے اسی وجہ سے شریعت و طریقت کے رموز سے پوری طرح واقف تھے ۔ ب بیداری و تہجد کے پابند تھے۔ لوگ تصوف کے کئی مسائل کا حل ان سے پوچھا کرتے تھے۔ اکابر علماء انہیں ان پڑھ فلسفی کہا کرتے تھے

ایک دن کوئی سائل بھیک مانگنے دروازے پہ آیا کئی بار جانے کیلئے کہا گیا مگر وہ اپنی جگہ سے ہلنے والا نہ تھا اقبال ان دنوں حالت شباب میں تھے اس فقیر کی ضد پہ طیش میں آگئے اور اس سائل کو دو تین طمانچے لگا دئے جو کچھ اس سائل کی جھولی میں تھا گر گیا     
یہ دیکھ کر اقبال کے والد رونے لگے اور اقبال سے فرمانے لگے
قیامت کے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد غازیان اسلام ، حکماء ، شہدا ، زہاد ، صوفیہ ، علماء اور عاصیان شرمسار جمع ہونگے تو اس مجمع میں اس مظلوم گدا کی فریاد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ مبارک کو اپنی طرف مرتکز کر لے گی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پوچھیں گے کہ تیرے سپرد ایک مسلم نوجوان کیا گیا تھا تاکہ تو اس کی تربیت ہمارے وضع کردہ اصولوں کے مطابق کرے، لیکن یہ آسان کام بھی تجھ سے نہ ہوسکا کہ اس خاک کے تودے کو انسان بنا دیتا ، تو تب میں اپنے آقا و مولا کی کیا جواب دوں گا؟؟
بیٹا !اس مجمع کا خیال کر اور میری سفید داڑھی دیکھ اور دیکھ کہ میں خوف اور امید سے کس طرح کانپ رہا ہوں ، باپ پہ اتنا ظلم نہ کر اور خدارا میرے آقا کے سامنے مجھے یوں ذلیل نہ کر
تو  تو چمن مصطفی کی ایک کلی ہے اس لئے اس چمن کی نسیم سے پھول بن کہ کھل  اور اس چمن کی بہار سے رنگ و بو پکڑ تاکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی خوشبو تجھ سے آسکے

  اقبال روزانہ قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے والد محترم روزانہ انہیں دیکھ کر گزر جاتے ایک دن گزرتے ہوئے فرمانے لگے کہ کبھی فرصت ملی تو تمہیں ایک بات بتاؤں گا بالآخر وہ بات ارشاد فرمائی تو فرمایا کہ بیٹا جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ قرآن تم پہ ہی اترا ہے یعنی اللہ خود تم سے کلام کر رہا ہے

ایک دن علامہ اقبال سے فرمانے لگے کہ میں نے تمہارے پڑھانے لکھانے میں کو محنت کی ہے ، میں تم سے اس کا معاوضہ چاہتا ہوں ۔ علامہ نے بڑے شوق سے پوچھا کہ وہ معاوضہ کیا ہے ؟
  فرمانے لگے میری محنت کا معاوضہ یہ ہے کہ
تم اسلام کی خدمت کرنا

Comments

Popular posts from this blog

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

گستاخ رسول کو کتے نے برداشت نہ کیا