ہزار سال ہندو ہمارے غلام رہے یا ہم ان کے : از ابوبکر قدوسی

ہزار سال ہندو ہمارے غلام رہے یا ہم ان کے :
از
ابوبکر قدوسی
ایک بات پر ذرا غور تو کیجئے کہ ہزار برس ہندو ہمارے غلام رہے یا ہم ان کے ؟
تو پھر ایسا کیا ہوا کہ ہماری ٹانگیں کانپنے لگی اور ہم ہر دم یہ "وظیفہ" کرنے لگے  کہ :
"انگریز جائے گا تو ہم ہندو کے غلام ہو جائیں گے ؟"
اور آج بھی آپ کی نصابی کتب تک اس جملے سے بھری ہوئی ہیں ، خود مسلم لیگ کے محترم صدر تک سے یہ جملہ منسوب ہے -
سوال یہ ہے کہ ہمیں یہ بزدلی کس نے سکھائی ، ہماری بہادری کس نے سلب کی ؟؟
معذرت کے ساتھ یہ کم ہمتی ، بزدلی ، پست خیالی اور نامردی ہمیں اس "علی گڑھی " تھذیب نے سکھائی تھی جہاں سے آنے والے دنوں میں ہماری قیادت برآمد ہو رہی تھی - سر سید کی سیاسی سوچ کا محور اور بنیادی نکتہ ہی انگریز کی خدمت ، اطاعت تھی -
اور قوموں کی حیات بزدلی نہیں بہادری کی مرہون  منت  ہوتی ہے - ہم نے کیوں نہ یہ سوچا کہ ہم نے ہزار برس ہندستان پر حکومت  کی ہے اور اب یہ ہمیں پھر واپس ملنے کو ہے -  اور ہم نے اسے واپس لینا ہے -
ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ہندوؤں کی ٹانگیں اس بات سے کانپتیں کہ انگریز جائے گا تو یہ " مسلے " پھر سے ہمارے سر پر سوار ہو جائیں گے -  اور حقیقت ہے کہ یہ  خیال آسیب کی طرح ہندووں پر سوار تھا اور اس کا علاج انہوں نے یوں کیا کہ ہمیں خود سے دور کر لیا -
اور یہ محض کوئی فرضی قصہ نہیں ،  کانگرس کی صف میں سردار پٹیل وہ پہلا ہندو رہنما تھا جسے مخلوط وزارتوں  کے بعد ہی  ادراک ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ  گزارا نہیں - اور اس نے پھر اس کے بعد ہر دن تقسیم وطن کی سوچ کو اپنی صفوں میں  پروان چڑھایا حتی کہ گاندھی اور نہرو اس کی سوچ کے قائل ہو گئے - مولانا آزاد پٹیل سے اسی سبب نالاں تھے -

Comments

Popular posts from this blog

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

گستاخ رسول کو کتے نے برداشت نہ کیا